چْبھ نہ جائے دیکھنا باریک ہے نوک قلم

یہ صرف سیاست کا ہی معاملہ نہیں ہمارا پورا سماج زوال مسلسل کا شکار ہے۔ زوال جب کسی سماج کا رخ کرتا ہے تو سماج کیلئے ممکن نہیں رہتا کہ اس میں کمال کے چند جزیرے آباد کر سکے۔ پھر کیا ووٹر اور کیا امیدوار۔ کیا امام اور کیا مقتدی۔ کیا سیاستدان اور کیا افسر جرنیل؟ ایک ہی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ سرکاری اہلکاروں نے رشوت کا نام فیس دھر لیا ہے۔ تاجر ٹیکس نہیں دینا چاہتے۔ جاگیردار اپنی جاگیروں کے تحفظ میں سرگرداں ہیں۔ ہر بندہ حسب توفیق کرپشن اور لاقانونیت میں مصروف ہے۔ گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن کے ایک سابق صدر نے اپنی صدارت کے دوران سیشن کورٹ میں سرکاری جگہ پر چیمبرز تعمیر کروا کے بہت مہنگے فروخت کئے۔ رقم بار کے اکا?نٹ میں جمع نہیں کروائی گئی۔ اس رقم کا کوئی آڈٹ بھی نہیں ہوا۔ ’’بادشاہ سلامت‘‘نے جیسے جی چاہا خرچ کی۔ کہاں کہاں ، کیسے کیسے خرچ ہوئی ، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا ؟ان چیمبروں کی نیلامی نے متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نئے وکلائ￿ کیلئے چیمبروں کا حصول ناممکن بنا دیا ہے۔اب یہاں چیمبروں کی پلاٹوں کی طرح ہی خرید و فروخت عام ہے۔ ان کے بعد آنے والا کوئی بار کا صدر ، سیکرٹری بھی اس پر معترض نہیں ہوا۔ در اصل بار عہدیدار آڈٹ کا رواج ہی نہیں ڈالنا چاہتے۔ لیکن مزے کی بات ہے کہ جب کالم نگار کو امیدواروں سے ووٹروں کے مطالبات سے آگاہی ہوئی تو اسے صدر صاحب چیمبروں کی رقم ادھر ْادھر کرنے میں حق بجانب دکھائی دیئے۔ ووٹر اور امیدوار ایک ہی صف میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔ سیاسی عہدیداروں کی کرپشن ہم نے ان کے حق کے طور پر تسلیم کر رکھی ہے۔ 
تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے نگران وزیر اعظم سے نوے روز میں الیکشن کا مطالبہ کیا ہے۔ ادھر الیکشن کا مطالبہ زوروں پر ہے۔ اْدھر نگران وزیر اعظم نے اپنے پہلے روز ہی الیکشن کے سوال پر بتا دیا تھا کہ وہ چیف الیکشن کمشنر نہیں جو الیکشن کی بابت سوال کا جواب دے سکے۔ اس جواب سے نئے حکمرانوں کا الیکشن بارے رویہ صاف ظاہر ہے۔ پورے ملک میں نوجوان ملک سے ڈوبتے ، تیرتے ، بھاگتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر کوئی ملک چھوڑنے پر تْلا بیٹھا ہے۔ اک ہمارے میاں نواز شریف ہیں جو لندن میں بیٹھے کہہ رہے ہیں۔ ’’جی! دعا ہے کہ ہم بھی پاکستان جائیں ‘‘۔ کسی دعا کو اللہ میاں شرف قبولیت بخشے یا نہ بخشے ، وہ دعا مانگنے والے کے دل کی سچی خواہش ضرور ہوتی ہے۔ میاں نواز شریف وطن واپسی کی دعا کیوں نہ مانگیں۔ اس رازکو رانا ثنائ￿ اللہ فاش کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق میاں نوازشریف کی وطن واپسی کی گارنٹی مل چکی ہے۔ وہ یہ بھی بتا رہے ہیں کہ نواز شریف کی عدالتوں سے بریت طے ہے۔ اب ان کے لئے زیرو رسک ہے۔ عدالتوں سے بریت کی یقین دہانی کے اخباری اقرار کا سپریم کورٹ کو نوٹس لینا چاہئے۔ نواز شریف کے دونوں بیٹے ملک کا مستقبل غیر محفوظ سمجھتے ہوئے بیرون ملک سیٹل ہو چکے ہیں۔ 
حکمران عوام نہیں اپنے حواریوں کو خوش رکھنے کیلئے نت نئے طریقے ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ بینظیر نے ایک ایسی ہی رعایت کی بنیاد رکھی۔ جس سے مستفید ہونے والے صدر ، وزیر اعظم ، فوجی سربراہ، چاروں صوبوں کے گورنر اور وزرائے اعلیٰ تھے۔ یہ رعایت ڈیوٹی فری مرسیڈیز کار منگوانے کا اجازت نامہ تھا۔ حکم نامے کے اعلان کے بعد اس وقت کے صدر پاکستان سردار فاروق خان لغاری ایک ہفتے سے بھی کم مدت کیلئے بیرون ملک دورے پر روانہ ہوئے۔ ان کی خالی جگہ چیئرمین سینٹ بیرسٹر وسیم سجاد نے پْر کی۔ موصوف نے ایوان صدر میں جس اولین حکم نامے پر دستخط فرمائے وہ بطورقائمقام صدر ڈیوٹی فری مرسیڈیز گاڑی کی درآمد کا اجازت نامہ تھا۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے بھی بطور اسپیکر قومی اسمبلی آخری روز سابق اسپیکر قومی اسمبلی کیلئے بے شمار مراعات کی منظوری دی۔ اس طرح تمام سابق اسپیکرز قومی اسمبلی بے شمار مراعات کے حقدار بن گئے۔ 
کامونکی سے مرحوم رانا شمشاد نے بتایا۔ 2013 کے الیکشن کے بعد ایک کھانے پر ہم چند‘ ن لیگی دوست ممبران اسمبلی اکٹھے ہوئے۔ گپ شپ ہو رہی تھی۔ موضوع بحث تھا : کیا اس مرتبہ میاں نواز شریف نئی حکمت عملی تیار کریں گے ؟ ایک صاحب کہنے لگے۔ اگر انہوں نے ذو الفقار احمد چیمہ کو آئی جی پنجاب لگایا تو سمجھاجا سکتا ہے کہ ن لیگ نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے۔ ورنہ وہی بے ڈھنگی چال جو پہلے تھی سو اب بھی ہوگی۔ لیکن ن لیگ کی روایتی سیاست حسب سابق جاری رہی اور چیمہ صاحب کو آئی جی پنجاب نہ لگایا جا سکا۔
 حکمرانوں کومیرٹ پر اڑ جانے والے افسران کبھی پسند نہیں ہوتے۔ 2015ئ￿ میں چیمہ صاحب ریٹائرڈ ہو گئے۔ جب عمران خان آئے تو خوش گمان لوگوں کو امید تھی کہ اب چیمہ صاحب کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ کئی مرتبہ عمران خان ذو الفقار احمد چیمہ کی دیانت ، جرات اور فرض شناسی کی تعریف کر چکے تھے۔ وزارت داخلہ کی مشاورت ان کے سپرد کی جا سکتی تھی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔تمام حکمرانوں کے مسائل اور مزاج ایک سا ہوتا ہے۔ اب نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی کابینہ میں وزارت داخلہ کے سلسلے میں ان کا نام لیا جانے لگا۔ ان دنوں رابطہ نہ ہو سکا ورنہ کالم نگار ان کو ساحر لدھیانوی کا یہ شعر ضرور سناتا:۔
یہ شادی باعث خانہ آبادی ہو میرے محترم بھائی 
مبارک کہہ نہیں سکتا میرا دل کانپ جاتا ہے 
پھر وزارت کا حلف اٹھانے والوں کی فہرست میں ان کا نام نہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اللہ نے ان کی عزت رکھ لی۔ 
لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز کی یاد داشتوں  پر مبنی کتاب کا نام  ہے ’’یہ خاموشی کب تک‘‘اور پہلے مضمون کا عنوان ’’چْبھ نہ جائے دیکھنا باریک ہے نوک قلم‘‘۔ کالم نگار نے بھی یہی اپنے اس کالم کا سرنامہ تجویز کیا ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...