پاکستان کی تاریخ میں انتہائی کم عمری میں خارجہ محاذ پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے پہلے وزیر خارجہ کااعزاز حاصل کرنے والے بلاول بھٹو زرداری نے 27 اپریل کو اپنی وزارت کا حلف اٹھایا تو وہ 34 سال کی عمر میں دنیا کے کم عمر ترین وزیر خارجہ بن گئے تھے۔ ان کی وزرات خارجہ کے سولہ ماہ دور کو دنیا بھر کے مبصرین تجزیہ نگار اور دانشور ایک کامیاب دور کہتے پائے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو نے جب وزرات خارجہ کا قلمدان سنبھالا تو اس وقت پاکستان عالمی تنہائی کے ساتھ ایک طرف ڈیفالٹ کے خطرے کا سامنا کر رہا تو دوسری جانب ایف اے ٹی ایف کی تلوار پاکستان کے سر پر لٹک رہی تھی۔ ان حالات میں ملک کو عالمی تنہائی سے نکالنا ،ڈیفالٹ سے بچانے اور ایف اے ٹی ایف کے خطرے سے بچنے کے لیے بلاول بھٹو زرداری کی دن رات کی محنت کوشش اور بہترین صلاحیتوں کے بروقت استعمال سے کی جانے والی سفارت کاری سے آج پاکستان دنیا بھر میں سرخرو ٹھہرا ۔ بلاول بھٹو زرداری نے بطور وزیر خارجہ اپنی وزرات میں بہت متاثر کن کردار ادا کیا جسے تاریخ کے سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ انھوں نے نہایت ہی مدبر انداز میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اہم نکات دنیا پر واضح کیے اور خارجی محاذ پر درپیش چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے بہت اچھے اقدام کیے جن کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
اپنے وزرات کے دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے متعدد بار کہا کہ ہمارا کام پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ اور امن کو بحال کرنا ہے، پاکستان کے امن کو کسی صورت داؤ پر نہیں لگنے دیں گے۔ سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مختلف پہلو تھے، جیسے ہی میں نے وزارت سنبھالی تو خارجہ پالیسی دباو کا شکار تھی جس سے نکالنے میں اپنی بھر پور کوشش کی اور پاکستان کو درپیش چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جب اقتدار سنبھالا تو پاک چین اور پاک امریکا کے ساتھ دیگر ممالک خصوصاً بردار اسلامی ممالک کے ساتھ بھی تعلقات مسائل کا شکار تھے، خوشی ہے کہ ان تعلقات کی بحالی میں کردار ادا کیا، سی پیک کو بحال کیا اور 10 سالہ تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ جیسے چیلنجز کا سامنا تھا، جس سے نکلنے کے لیے وقت سے پہلے 2 ایکشن پلان مکمل کیے جس مین ان کی پارٹی کی معزز ممبر حنا ربانی کھر نے بھی دن رات کام کیا۔انھوں نے کہا کہ طلبہ کو ویزے کی سہولیات کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے، وزارت نے بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا ۔ سابق وزیر خارجہ کی یہ بات بھی لکھے جانے کے قابل ہے کہ ہم نے دنیا کے ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا، مقبوضہ وادی میں نہتے کشمیریوں کوظلم وجبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے ہر فورم پرآواز اٹھائی۔
بلاول بھٹو زرداری نے بطور وزیر خارجہ سعودیہ چین، امریکا، متحدہ عرب امارات، ایران اور جرمنی روس کے علاوہ متعدد ممالک کے دورے کیے۔ ان دوروں کے دوران انھوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے اور عالمی طاقتوں کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے دور وزرات میں اپنی بہترین خارجہ حکمت عملی اور تعلقات کو نئی بنیادوں پر استوار کیا۔بلاول بھٹو زرداری نے پاکستانی سفارت کاری میں ایک نئی روح پھونکی انتہائی قلیل عرصے میں متعدد اہم ممالک کے دورے اور کئی خاص اجلاسوں میں شرکت کے ذریعے بین الااقوامی معاملات پر پاکستان کا موقف اجاگر کیا۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے، چین کے ساتھ سی پیک پر بریک تھرو ہوا، جموں کشمیر پر بڑے مؤثر انداز میں عالمی لیڈروں کے ساتھ بات کی، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو پاکستان میں سیلان زدگان کے بارے بریفنگ دی اور جس طریقے سے انھوں نے سیلاب کے معاملے پر بین الااقوامی رہنماؤں کو متحرک کیا جس کے نتیجے میں سیلاب زدگان کی امداد ہوئی یہ بھی کم قابل ذکر نہیں ہے۔
سفارتی محاذ پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں اور میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں تجزیوںکے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے موسمیاتی انصاف کا تقاضا اور سیلاب زدگان کے لیے پوری دنیا سے مدد کی اپیل کی جس پر مثبت ردِعمل دیکھنے میں آیا جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گویترس پاکستان آئے جس کی وجہ بہترین خارجہ پالیسی اور بلاول بھٹو کی عالمی سطح پر پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔ اپنے سیاسی پس منظر اور ذہانت سے بلاول بھٹو سفارتی سطح پر اچھا تاثر چھوڑنے میں کامیاب رہے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے مسائل کو سمجھا گیا اور اہمیت کو تسلیم کیا گیا یہ سب بہتر سفارت کاری کا ہی نتیجہ ہے۔ بین الاقومی امور کے ماہرین بطور وزیرِ خارجہ پاکستان کا مثبت تاثر اقوامِ عالم تک پہنچانے کے حوالے سے ان کی کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے انتہائی کم عرصے میں ان کی کامیابیوں کو پاکستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ قرار دیتے ہیں۔