جڑانوالہ کے دل خراش واقعات

جڑانوالہ کے دل خراش واقعات ابتدائی تحقیقات میں ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ قرار دیے گئے ہیں جس میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ملوث ہونے کا امکان بھی رد نہیں کیا گیا جس کے گماشتوں نے نواحی علاقوں کے چند لوگوں کو گمراہ کیا اور انھیں جڑانوالہ پہنچا کر کچھ مقامی افراد کو بھی مسیحی برادری کے گرجا گھروں اور املاک پر حملوں کے لیے اکسایا۔  افسوسناک واقعات کی حکومت اور پوری قوم نے شدید مذمت کی ہے۔ علماء کے ایک وفد نے لاہور کے ایک چرچ میں جاکر بشپ اور مسیحی برادری سے اس نارواعمل کی معافی مانگی۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے سانحہ کا نوٹس لیتے ہوئے آئی ایس پی آر کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسے انتہائی افسوسناک اور ناقابل برداشت قرار دیا اور کہا کہ پاکستان کے تمام شہری، مذہب جنس ذات اور عقیدے کی تفریق کے بغیر ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ اقلیتوں کے خلاف عدم برداشت کی کوئی گنجائش نہیں۔
جڑانوالہ میں جو کچھ ہوا اس کا دفاع تو نہیں کیا جا سکتا۔ بنیادی طور پر یہ معاشرے کا سب سے تشویشناک پہلو ہے کہ یہاں قانون کو ہاتھ میں لینا بہادری سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں قانون توڑنا بہادروں کا شیوہ ہے اور ملک میں قانون توڑنا اور ملکی قوانین کو پاؤں تلے روندنا قوانین پر عمل درآمد سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ بالخصوص جب کوئی بپھرا ہوا گروہ ہو تو وہاں ایسی صورتحال اور بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ ملک میں ایسا واقعہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ ماضی میں بھی ایسے افسوسناک واقعات رونما ہو چکے ہیں اور آئندہ کے لیے ہمیں ایسے واقعات کا راستہ روکنا ہے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ ناصرف دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ اندرونی طور پر بدامنی کے خدشات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ملک میں امن و امان کو خطرات لاحق ہوتے ہیں اس واقعے کے ذمہ داروں کی مرمت بھی ہونی چاہیے اور جس وجہ سے یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے اس کی بھی مکمل اور غیر جانبدار تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی ذمہ دار کسی بھی حوالے سے قانون کے شکنجے سے بچ نہ سکے۔
2004ء میں جب وزارت مذہبی امور کا چارج میرے پاس تھا، ان دنوں بھی دو واقعات ہوئے تھے ایک شانتی نگر میں دوسرا سانگلہ ہل میں، جہاں گرجا گھر اور سکول جلا دیا گیا تھا۔ اس وقعہ کی تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا کہ یہ سب کچھ غلط فہمی کی بنیاد پر ہوا تھا، ایک واقعہ میں تو مسیحی اور مسلمان نوجوانوں کا تش کھیلتے ہوئے جھگڑا ہوا جس نے افسوس ناک واقعہ کی شکل اختیار کرلی، اس وقت میری تجویز پر ایسا ہوا کہ ہر ضلع کی بنیاد پر کمیٹی بنائی گئی جس میں اقلیتی نمائندوں کے علاوہ تاجروں اور علماء کرام کو بھی شامل کیا گیا، اس کمیٹی کے ذمہ یہ کام تھا کہ ہر ماہ سی پی او اور ڈی پی او کے ساتھ میٹنگ کرے گی اور ضلع بھر میں ایسے کسی بھی واقعہ کی روک تھام کے لیے کام کرے گی، یہ کمیٹیاں اب بحال اور فعال بنادینے کی ضرورت ہے۔
اسلام اور ہمارا بھی ہمیں اقلیتوں کے حقوق کی مکمل حفاظت کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس کے لیے ہمارے سامنے628 عیسوی کا ایک معاہدہ ہے، یہ معاہدہ پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہے اس سے ہمیں مکمل رہنمائی ملتی ہے۔ تاریخی طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ یمن کے عیسائیوں کی جانب آنے والے ایک وفد کے موقع پر لکھا گیا تھا۔ معاہدے میں لکھا، یہ پیغام محمدﷺ بن عبداللہ کی طرف سے عیسائیت قبول کرنے والوں کے لیے ہے، یہ ہمارے شہری ہیں، ان کے لیے میری طرف سے امان ہے خواہ دور ہوں یا نزدیک، ان کے گرجا گھروں کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، ان کے منصفین کو منصب سے نہیں ہٹایا جائے گا، ان کی خواتین سے ان کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کی جائے گی اس خاتون کو عبادت کے لیے گرجا گھر جانے سے نہیں روکا جائے گا، یہ معاہدہ تاقیامت رہے گا۔ جب ہمارے پیارے نبیﷺ نے خود اس طرح کا معاہدہ کیا ہوا ہے تو ہمیں خود اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ ہمارے عمل سے کسی بھی اقلیتی برادری کو نقصان نہ پہنچے۔
 فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں گزشتہ دنوں مشتعل مظاہرین کی جانب سے قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مسیحی برادری پر حملوں، جلائو گھیرائو، چار گرجا گھروں، درجنوں مکانات، گاڑیوں اور دوسری املاک کو نذر آتش کرنے کے انتہائی افسوسناک واقعات کسی بھی مذہب کے پیروکاروں، بالخصوص مسلمانوں کے لیے سراسر ناقابل قبول ہیں۔ واقعات میں ملوث سو سے زائد افراد گرفتار کرلیے گئے ہیںجن سے سائنٹیفک طریقے سے تفتیش جاری ہے جبکہ 6 سو کے خلاف مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ واقعے کا پس منظر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ دو مسیحی نوجوانوں نے قابل اعتراض پمفلٹ لکھے، جو توہین مذہب کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن پاک کے چند اوراق کی بے حرمتی بھی کی۔ اس  واقعہ کارات پتا چلنے پر لوگوں میں اشتعال پھیل گیا اور شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ مشتعل افراد نے عیسائی برادری کی املاک کے علاوہ سرکاری عمارات پر بھی حملے کیے اور توڑ پھوڑ کی۔
یہ بات باعث اطمینان ہے کہ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی ہے کہ مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لائیں۔نگران وزیراعظم نے جڑانوالہ میں توہین قرآن کے الزام میں مسیحی برادری کے گھروں اور گرجا گھروں پر حملوں اور املاک نذرِ آتش کیے جانے کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دے دیا ہے سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے بیان میں کہا کہ فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے مناظر نے انھیں دہلا کر رکھ دیا ہے، اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔انھوں نے تمام پاکستانیوں کو یقین دلاتے ہوئے کہا کہ حکومت برابری کی بنیاد پر اپنے شہریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ پولیس ترجمان کے مطابق اہل ِ علاقہ نے ایک مسیحی نوجوان پر توہین مذہب کا الزام لگایا جس کے بعد مساجد سے اعلانات کرائے گئے اور اہل ِ علاقہ کی بڑی تعداد جمع ہو گئی۔جان بچانے کے لیے مسیحی شہری گھر خالی کر کے اِدھر اُدھر پھیل گئے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے سانحہ جڑانوالہ میں ملوث افراد کو سزا دینے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ملک کے ہر طبقہ ہائے فکر نے سانحہ جڑانوالہ کی نہ صرف سخت الفاظ میں مذمت کی ہے بلکہ سب ہی کا موقف ہے کہ ایسے واقعات کی پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں، سب ہی نے اِس واقعے میں ملوث ہر شخص کو سخت سے سخت سزا دیے جانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ یہ سوچی سمجھی سازش تھی اِسے نہ صرف بے نقاب کیا جانا چاہیے بلکہ اِس کے کرداروں کو مثالی سزائیں ملنی چاہئیں۔ مساجد اور عبادت گاہیں اَمن کا گہوارہ ہوتے ہیں،بجائے اِس کے کہ اِن مقدس جگہوں سے لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کیا جائے، اُلٹا انھیں بڑھاوا دیا جاتا ہے، پُرتشدد واقعات پر اکسایا جاتا ہے۔ ایسے عناصر کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جانی چاہیے کہ یہ بھی اس سانحے کے کرداروں کے گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ اپنے بیان میں انھوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اقلیتوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی اور تمام شہریوں کو مساوی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن