عنبرین فاطمہ
ایک وقت تھا پاکستان میں کسی کو فیشن ڈیزائنرز اوران کے تیار کردہ جوڑوں کی اہمیت سے آشنائی نہیں تھی ، بلکہ کئی لوگ تو ان کے کام کا مذاق اڑاتے تھے اور کہا کرتے تھے کو ن ہیں یہ لوگ اور یہ کیا کام کررہے ہیں۔آج سے ایک ڈیڑھ دہائی پہلے تک ایک خاص طبقہ ہی برینڈڈ جوڑے پہنتا تھا اور ڈیزائنرز جوڑوں کو ترجیح دیتا تھا، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ٹیکنالوجی نے ترقی کی ،موبائل میں ساری دنیا کا فیشن سمٹ کر آگیا ، اور فیشن کے ٹرینڈز سے آگاہی خواتین کے لئے آسان ہو گئی ۔ تو عام خواتین کو بھی سمجھ آنے لگی کہ فیشن کے تقاضے کیا ہیں اور برینڈڈ جوڑے پہننا وقتی ضرورت ہیں۔آج ہر طبقے کی خاتون برینڈڈ جوڑا زیب تن کرنا چاہتی ہے۔ وہ جس بھی مارکیٹ میں جاتی ہے سب سے پہلے سوال کرتی ہے کہ بھائی کس کس برینڈ کے جوڑے آپ کے پاس پڑے ہوئے ہیں اور دکاندار بھی خواتین کی رمز سمجھ چکے ہیں لہذادکان پر جیسے ہی کوئی خاتون آتی ہے وہ آتے ساتھ ہی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس تمام برینڈڈ جوڑے ہیں آپ کس برینڈ کا جوڑا لیں گی، اور اس وقت مارکیٹ میں ریپلیکا ایک بڑی تعداد میں موجود ہے۔ ہر دوسری دکان پر ریپلیکا موجود ہے بعض اوقات تو دکاندار ریپلیکا کو بھی اچھے خاصے پیسوں میں فروخت کر رہا ہوتا ہے۔ لاہور سے تھوڑا باہر نکلیں تو ریپلیکا بڑی تعداد میں بنایا جا رہا ہے ، لوگوں نے بڑے بڑے گھروں میں مشینیں لگائی ہوئی ہیں اور دھڑا دھڑا ریپلیکا تیار ہو رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بہت ساری جگہوں پر جو ملیں ارویجنلی کپڑے بنا رہی ہیں وہیں ریپلیکا بھی تیار کرکے دے رہی ہیں۔ اس وقت لوگ سٹیٹس کو مین ٹین رکھنے کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار نظر آتے ہیں ۔خواتین خصوصی طور پر اس میں بہت آگے ہیں ، اگر ہم کہیں کہ اس معاملے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد برینڈڈ کپڑے نہیں بلکہ احساس کمتری خرید رہی ہیں تو بے جانہ ہوگا۔اس وقت ہمارے ہاں لان ، جے کارٹ ، لینن ، مرینہ ، بن رہی ہے اس میں نیٹ ، آرگینزا ، جامہ ور ، رائو سلک ، وسواس ، بنارسی کپڑا ، بنارسی اورگنزا ملایا جا رہا ہے کہیں ان کپڑوں کے بازو بنائے جا رہے ہیں تو کہیں ان کو دوپٹوں میں شامل کیا جا رہا ہے۔ اس وقت بلاک پرنٹنگ اور اس پر کڑھائی کے علاوہ چکن کاری بہت زیادہ پسند کی جا رہی ہے اور جو بھی ڈیزائنر اس پر کام کررہا ہے اس کی ریپلیکا اوریجنل کلیکشن مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی مارکیٹ میں پہنچ چکی ہوتی ہے۔ فیشن ڈیزائنرز کا کہنا ہے کہ ہم اپنی کلیکشن پر توجہ دیں یا ان ریپلیکا بنانے والوں کو پکڑیں ۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ رپلیکا اتنے بے ڈھنگے انداز میں بنایا جاتا ہے کہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہم نے مہینوں محنت کی اور اسکو چور ی کرنے والوں نے راتوں رات کئی ہزار جوڑے بنا لئے۔ اگر ہم جوڑوں کی مارکیٹ میں قیمت کو دیکھیں تو 1200 سے لیکر 25سے تیس ہزار تک کا جوڑا موجود ہے اور مہنگائی کے باوجود ہر قیمت میں جوڑا لینے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ اس وقت ڈیزائنر شرٹ کو ہی لے لیں تو وہ پانچ ہزار سے شروع ہو رہی ہے لیکن ان کے خریدار موجود ہیں تاہم اگر یہ کہا جائے فیشن ڈیزائنرز یا برینڈز بہت کما رہے ہیں تو یہ بہت حد تک درست نہیں ہے کیونکہ یہ بات ٹھیک ہے کہ اس وقت برینڈز فائدے میں جا رہے ہیں ان کو نقصان نہیں ہیں لیکن جس طرح سے وہ پہلے کما رہے تھے وہ چیز اب نہیں ہے ۔ بات کریں رنگوں کی تو ہلکے اور گہرے رنگوں کے امتزاج سے جوڑے تیار کئے جارے ہیں ، کہیں ہلکے رنگ کا جوڑا ہے اور اس میں گہرا رنگ کم ہے تو کہیں گہرا رنگ زیادہ ہے اور ہلکا رنگ کم ہے۔ریڈی ٹو وئیر کا رجحان بھی کافی پروان چڑھا ہوا ہے ، بازار میں اس وقت رپلیکا میں اورویسے بھی لوکل لیول پر ایک ہزار کی قمیض پانچ سو کی شلوار پانچ سو کا دوپٹہ دستیاب ہے جو خواتین رپلیکا میں بھی بہت زیادہ مہنگے جوڑے افورڈ نہیں کر پاتیں وہ اس قسم کے ریڈی ٹو وئیر مارکیٹ سے اٹھا لیتی ہیں ۔ معروف فیشن ڈیزائنر بی جی اس ساری صورتحال پر کہتی ہیں کہ اس وقت ہر انسان ہر چیز کو اپنے سٹیٹس سے جوڑ رہا ہے، اور اسکو ہر چیز برینڈڈ چاہیے چاہے وہ رپلیکا کے نام پر ہی کیوں نہ ملے، ہر کوئی اپنی چادر سے باہر پائوں پھیلاتا ہوا نظر آرہا ہے جو کہ کسی بھی طور درست نہیں ہے۔بی جی نے مزید کہا کہ مارکیٹ میں اس وقت کپڑے کی ورائٹی تو بہت زیادہ ہے لیکن مہنگائی کی وجہ سے خواتین کی کوشش ہوتی ہے کہ چاہے رپلیکا کے نام پر ہی برینڈڈ جوڑا کیوں نہ ملے بس اٹھا لو لیکن وہ یہ نہیں دیکھتیں کہ اس قسم کے کپڑے کی عمر کم ہوتی ہے اور اسکا وہ معیار نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ چاہیے کم سہی لیکن مہنگائی کے اس عالم میں اگر خواتین کوئی جوڑا بناتی ہیں تو کم از کم اتنا بہتر ضرور ہونا چاہیے کہ ایک سیزن اس سے نکل جائے۔ یہ تو تھے بی جی کے خیالات۔مارکیٹ میں فیشن ٹرینڈز جو چل رہے ہیں ان کے مطابق وقت لمبی قمیضیں پسند کی جا رہی ہیں بلکہ ٹخنوں تک قمیضیں بھی پسند کی جا رہی ہیں ۔ ان کے ساتھ کھلے پائنچوں والی شلواریں ، کافتان ، مختلف کٹس اور ڈیزائن کے پسند کئے جا رہے ہیں ، مختلف قسم کے شلواریں بھی پسند کیا جا رہی ہیں ۔ ٹائٹس اس وقت بالکل فیشن سے آئوٹ ہو چکے ہیں، یہاں تک کہ سیگریٹ پینٹس اور پاجامے بھی اس وقت فیشن میں نہیں ہیں ۔ جیولری میں نگینوں کی جیولری زیادہ پسند کی جا رہی ہے۔
ڈیزائنز کا کام سستے داموں بکنے لگا
Aug 21, 2023