تجزیہ کرنے کے لیے بنیادی طور پر تین پہلووں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ 1 حالات و واقعات، زمینی حقائق۔ 2 واقفان حال کی معلومات یا سیاسی پنڈتوں کی پیش گوئیاں۔ 3 ستاروں کی چالیں، مختلف علوم کے ماہرین کی رائے۔ پاکستان میں ان تین نکات سے زیادہ اہم بااختیار افراد کی خواہشات حالات وواقعات اور فیصلے ہوتے ہیں۔ ہم ایک معروف دانشور کی محفل میں بیٹھے تھے کسی نے سوال کیا کہ جناب کیا بننے جا رہا ہے ان کا جواب تھا یہ سوال اگر تم مجھ سے امریکہ، برطانیہ،یورپ یا چین کے بارے میں پوچھو تو میں وہاں کے معاملات کو مدنظر رکھ کر آپ کو جواب دے سکتا ہوں لیکن پاکستان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہاں معاملات ایک سسٹم کے ذریعے چلائے جاتے ہیں چنانچہ وہاں دو جمع دو چار ہی ہوتے ہیں۔ یہاں دو جمع دو پانچ بھی ہو سکتے ہیں اور آٹھ بھی ہو سکتے ہیں اس لیے یہاں یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا ہوگا۔ یہاں اگلے لمحے کسی کی خواہش کو جوش آئے اور وہ کچھ بھی کر لے۔ تو حالات و واقعات کی روشنی میں کیے جانے والے تجزیے کہاں جائیں گے۔ آج کل پاکستان میں کریک ڈاؤن کا ایک نیا فیز آیا ہوا ہے۔ ڈیجٹل دہشت گردی کے نام پر دھڑا دھڑ گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ نت نئی سازشوں کے تانے بانے آشکار ہو رہے ہیں۔ نئی نئی کہانیاں جنم لے رہی ہیں۔ ہر بندہ دوسرے کو مشکوک نظر آ رہا ہے، ہر کوئی پوچھتا ہے کیا ہو رہا ہے کیا ہونے جا رہا ہے۔ کیا ہو رہا ہے، یہ تو سب کے سامنے ہے لیکن کیا ہونے جا رہا ہے یا کیا ہو جائے گا اس بارے حتمی رائے نہیں دی جا سکتی البتہ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی لمحے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ عوام ذہنی طور پر تیار ہیں کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے تاہم زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ معاملات بانی پی ٹی آئی کے خلاف جا رہے ہیں۔ آجکل پی ٹی آئی کے ورکروں پر پھر کڑا وقت آیا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن جاری ہے۔ فائر وال کے نام پر پاکستان سلو موشن پر چل رہا ہے۔ پوری دنیا انٹر نیٹ کی سپیڈ بڑھانے کے اقدامات کر رہی ہے اور ہم انٹرنیٹ کی سپیڈ کو سلو موشن پر لے آئے ہیں۔ ہم بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے بعد انٹرنیٹ کی لوڈشیڈنگ کر رہے ہیں۔ ڈیجیٹل دہشتگردوں کو پکڑنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے شاید وہ والے نتائج حاصل نہ ہو پائیں لیکن ملک کے کاروباری شعبہ کی قبر ضرور کھود دی جائے گی۔ پہلے ہی بیروزگاری عروج پر ہے اوپر سے رابطوں میں سپیڈبریکر لگانے کی کوششوں نے بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ آج کل کے جدید دور میں جبکہ دنیا کے ساتھ سارا لین دین انفارمیشن ٹیکنالوجی پر منتقل ہو چکا ہے ہم نے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے اربوں روپے کا نقصان کر لیا ہے اور آگے چل کر اس کے جو اثرات نمودار ہوں گے پاکستانیوں کو اس کے لیے نیا جنم لینا پڑے گا۔ نئے رابطے اور نئے آرڈر ڈھونڈنا پڑیں گے۔ بات سیاسی حالات کی ہو رہی تھی درمیان میں ٹیکنالوجی آگئی۔ بانی پی ٹی آئی تو جیل میں ہیں ان پر اتنی سختی نہیں جتنی سختی ورکرز برداشت کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو متاثر کرنے کے لیے اس کے اندر بھی توڑ پھوڑ کا عمل جاری ہے۔ ہر سطح پر ابہام پیدا کرکے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے اور بانی پی ٹی آئی کے کانوں میں کھسر پھسر کرکے ان کے پیغامات کو اپنا رنگ دے کر رنگ دکھائے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلہ کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے، یہ اپنی جگہ پر لیکن پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی غائب ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ بظاہر موجودہ حالات سے یہی تاثر ملتا ہے کہ تحریک انصاف کی دال گلتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ لیکن سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ اگلے دو ماہ بہت اہم ہیں۔ ایک اہم جنگ ختم ہونے کو ہے ڈیڑھ دو ماہ کے بعد ایک نیا فیز آئے گا۔ عدالتوں سے تیزی کے ساتھ فیصلے آئیں گے۔ بانی پی ٹی آئی کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی اور اگر عدالتی ریلیف کی صورت میں بانی پی ٹی آئی رہا ہوتے ہیں تو وہ فوری طور پر کوئی تحریک نہیں چلائیں گے کچھ عرصہ کے لیے خاموشی اختیار کریں گے۔ ایک وقفہ لیں گے جس کے بعد ایک نئی جدوجہد کا آغاز کریں گے۔ سیاسی پنڈتوں کے خیال میں تین بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں عدالتیں بڑی متحرک ہوں گی اور تاریخی فیصلے آسکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ادارے ایک دوسرے کے مدمقابل آجائیں۔ جعلی سیاسی جنگ کا خاتمہ ہو گا۔ اسٹیبلشمنٹ سائیڈ پر ہو جائے گی اور پاکستان کی سیاسی صورتحال بین الاقوامی صورتحال کے ساتھ نتھی ہو جائے گی۔ تیسرے یہ کہ حکومت کے لیے مہنگائی سے پیدا ہونے والے حالات خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ حکومت کو مہنگائی اور اتحادیوں سے خطرہ ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن معاملات کو اپنی طرز پر چلانا چاہ رہی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کسی اور لائن پر جانا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ ن پہلے اقتدار چھوڑنے پر تیار تھی اب وہ اقتدار کو اپنا مورچہ سمجھ رہی ہے۔ ن لیگ اگر اپنی سیاست کو دوام بخشنے کے لیے کوئی ایسا ایکشن لیتی ہے، کسی ادارے یا شخصیت کو نشانہ بناتی ہے تو پیپلزپارٹی مقابلے میں آجائے گی۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ کسی بھی پیدا شدہ حالات کے نتیجے میں نئے الیکشن ہو جائیں گے تو ابھی فی الحال ایسا ممکن نہیں البتہ کسی اور سسٹم کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ حبس زدہ موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی سیاسی موسم بھی بدل جائے گا۔ جوں جوں سردی کا موسم شروع ہو گا، دن چھوٹے اور راتیں بڑی ہونا شروع ہوں گی۔ راتوں کے سکون میں اضافہ ہونا شروع ہو جائے گا۔ آخر میں پھر وہی کہ جس طرح ساون بھادوں کے موسم کا کوئی اعتبار نہیں کب حبس ہو جائے اور حبس بھی ایسا کہ جس میں سانس لینا بھی دشوار ہو جائے اور کب بارش برسنا شروع ہو جائے اور خوشگوار ہوا کے جھونکے لوریاں دینا شروع کر دیں۔ پاکستانی سیاست بھی ایسی ہی ہے۔ دیکھتے جائیں کیا ہوتا ہے کیونکہ آپ کا کام صرف دیکھنا ہے۔