بات صرف جنرل (ر) فیض حمید تک محدود نہیں رہی۔ فوج نے مزید تین اعلیٰ رینک کے ریٹائرڈ فوجی افسروں کو بھی اپنی ’’تحویل‘‘ میں لے لیا ہے۔ اسے آپ آرمی ایکٹ کے تحت لیگل حراست بھی کہہ سکتے ہیں۔ جنرل فیض اور دیگر فوجی افسروں پر ایک سیاسی جماعت کی سہولت کاری کا الزام ہے۔ گرفتار ہونے والے تینوں ریٹائرڈ فوجی افسران جنرل فیض کے قریبی ساتھی بتائے جاتے ہیں۔ ریٹائرڈ بریگیڈیئر غفار اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم کا تعلق چکوال سے ہے۔ چکوال، راولپنڈی کے قریب واقع پنجاب کا وہ ضلع ہے جو عسکری اور سیاسی لحاظ سے خاصا معروف ہے۔ چکوال سے تعلق رکھنے والے فوج میں جانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت بڑے عہدوں پر فائز ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں ریٹائرڈ کرنل عاصم بھی شامل ہیں۔ ان سب کا تعلق بانی پی ٹی آئی سے ظاہر ہوا ہے جو عمران خان اور جنرل فیض کے مابین پیغام رسانی کا کام کرتے تھے۔ یہ اْن کی ہر طرح کی سہولت کاری میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ یہ سیاسی مفادات کی خاطر ملک میں عدم استحکام کو ہوا دے رہے تھے۔
اڈیالہ جیل میں عمران خان کی سہولت کاری اور پیغام رسانی کے لیے بنایا گیا خفیہ نیٹ ورک بھی فوج نے پکڑ لیا ہے جو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل محمد اکرم اور اْن کے تین معتمد ماتحت ملازمین کے ذریعے چلایا جا رہا تھا۔ سہولت کاری کے الزام میں ڈپٹی سپرنٹنڈنت پہلے ہی معطل کئے جا چکے ہیں۔ انہیں قریبی ساتھیوں سمیت فوجی تحویل میں بھی لے لیا گیا ہے۔بات کہاں تک جائے گی؟ تبصرہ اور تجزیہ کرنے والے اس موضوع پر مختلف انداز سے بحث مباحثہ اور تجزیہ کر رہے ہیں جس سے چہ میگوئیوں اور افواہوں کا بازار گرم ہے۔ نجی چینلز کے کئی ٹاک شو اسی موضوع کے لیے مختص ہو گئے ہیں۔ رائے قائم کی جا رہی ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور اْن کی جماعت ایسے گرداب میں پھنس چکی ہے جہاں سے نکلنا اب اْن کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو گیا ہے۔
11اگست کو جب جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری عمل میں آئی تو انہیں فوجی حراست میں جی ایچ کیو منتقل کرنے کے بعد آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے فوری ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں بتایا گیا کہ جنرل (ر)فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ جنرل فیض کو ’’تحویل‘‘ میں لینے کی کارروائی سپریم کورٹ کے حکم پر اسلام آباد کی ایک نجی ہائوسنگ سکیم ٹاپ سٹی سے متعلق شکایات اور اعلیٰ سطح کے ’’انکوائری بورڈ‘‘ میں ٹھوس شواہد ملنے پر عمل میں لائی گئی۔ پریس ریلیز کے دوسرے حصے میں یہ بھی کہا گیا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جنرل فیض خلاف قانون سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے۔ جبکہ آرمی ایکٹ ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد تک کسی آرمی آفیسر کو کسی بھی سیاسی سرگرمی میں حصّہ لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ انکوائری بورڈ کو ایسے شواہد بھی ملے کہ جنرل فیض نے جان بوجھ کر آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کی۔ ٹھوس شواہد ملنے کے بعد انہیں تحویل میں لے کر فیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ریٹائرڈ جنرل فیض حمید فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ اْن کی آخری پوسٹنگ پشاور میں بطور کور کمانڈر تھی۔ اس سے پہلے پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ (DG)کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دئیے۔ جب ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو بہت زیادہ خبروں میں رہے۔ نواز شریف اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کو قرار دیتے تھے۔ بہرحال حالات کبھی ایک سے نہیں رہتے۔ زندگی میں بہت سے اُتار چڑھائو آتے ہیں جن کا سامنا آج جنرل فیض کو بھی ہے۔
اڈیالہ جیل میں پیغام رسانی اور عمران خان کے لیے سہولت کاری کا ایک خفیہ نیٹ ورک بھی پکڑا جا چکا ہے۔ اس تناظر میں نہ صرف جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم معطل کر دئیے گئے ہیں بلکہ تین ماتحت ملازمین کے لاپتہ ہونے کی بھی خبریں ہیں۔ محمد اکرم کی بازیابی کے لیے اہلیہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن بھی ایمان مزاری ایڈووکیٹ کی وساطت سے دائر کر رکھی ہے۔ جس پر کورٹ نے وزارت داخلہ اور آئی جی اسلام آباد سے جواب طلب کر لیا ہے۔
حالات جس تیزی سے اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں، اْسے دیکھ کر لگتا ہے کہ ابھی اور بھی بہت کچھ ہونے والا ہے۔ بہت سے اور چہرے بے نقاب ہوں گے جو بعد ازاں پابندِ سلاسل ہوتے بھی نظر آئیں گے۔ جنرل فیض جیسی بااثر اور اہم عسکری عہدوں پر فائز رہنے والی شخصیت کا اس طرح پکڑے جانا اور فیلڈ کورٹ مارشل کی سخت ترین کارروائی کا ہونا فوج کی طرف سے سخت پیغام ہے کہ 9مئی والوں کو ہر صورت انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ فوج کے اس سخت ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ 9مئی کی تحقیقات کرنے والے آرمی انویسٹی گیشن بورڈ کے پاس ایسے ٹھوس شواہد آ گئے ہیں جن کی بناء پر جنرل فیض کا فیلڈ کورٹ مارشل کیا جا رہا ہے۔ 9مئی کے واضح شواہد نہ ملے ہوتے تو فوج میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہنے والے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر کبھی اس طرح ہاتھ نہ ڈالا جاتا۔ فوج کا طریقہ کار ہے کہ بغیر ثبوت وہ کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔
جنرل فیض کے بعد مزید تین ریٹائرڈ فوجی افسروں کا گرفتار ہونا، اڈیالہ جیل سے سہولت کاری اور پیغام رسانی کے خفیہ نیٹ ورک کا پکڑے جانا غمازی کرتا ہے کہ بات دور تک جائے گی۔ یقینی طور پر بانی پی ٹی آئی کے لیے بھی پھندا تیار ہو گیا ہے۔ جنرل فیض، دو بریگیڈیئرز، ایک کرنل اور سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی گرفتاری اور اْن سے ہونے والی تفتیش کے بعد مزید بہت سے انکشافات کی توقع ہے۔ اگرچہ مسلمہ فوجی اصول کے مطابق فوج اپنی کسی کارروائی کو ظاہر نہیں کرتی۔ لیکن چونکہ 9مئی کے واقعات میں کچھ سیاسی شخصیات کے نام بھی آ رہے ہیں، انہیں ملوث پایا گیا ہے اس لیے قوی امکان ہے کہ فوج کا انویسٹی گیشن بورڈ 9مئی کی تحقیقات میں دستیاب حقائق ضرور منظر عام پر لائے گا۔ توقع ہے 9مئی کے حوالے سے ساری سچائی قوم کے سامنے آ جائے گی ،دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
کورٹ مارشل کیاہے؟ اور عسکری عدالت کسے کہتے ہیں؟ یہ سوال آج کل بہت گردش کر رہا ہے زبانِ زدِ عام بھی ہے۔ ایسی فوجی عدالت جس میں مسلح افواج کے افسروں اور جوانوں کے خلاف فوجی نظم و ضبط اور جنگی قوانین توڑنے کا مقدمہ چلایا جائے، کورٹ مارشل کہلاتی ہے۔ برطانیہ میں پہلی بار 1951ء میں فوجی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا۔جس کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ فوجی نظم و ضبط کی خلاف ورزی اور قوانین توڑنے والے افسروں اور جوانوں پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلا کر انہیں انصاف کے عمل سے گزارا جائے۔ کورٹ مارشل کا امریکی نظام بھی برطانوی نظام کے مشابہ ہے۔ کچھ ممالک میں خاص جرائم پر عام شہریوں کا مقدمہ بھی فوجی عدالت سن سکتی ہے۔ ملٹری کورٹ کا ٹرائل اِن کیمرہ ہوتا ہے۔ جس میں ایک سول اور فوج کی جانب سے متعین کردہ سرکاری وکیل کو ٹرائل میں حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے۔ کورٹ کا سربراہ ایک سینئر فوجی افسر ہوتا ہے جبکہ دو یا تین سینئر افسر اس کورٹ کے ممبر ہوتے ہیں۔ جس کا ٹرائل ہو رہا ہو، وہ اپنا بیان عائد کردہ الزام کے تناظر میں قلمبند کراتا ہے۔ اعتراف جرم نہ کرے تو اْسے اپنی صفائی میں میٹریل شہادتیں پیش کرنا ہوتی ہیں۔ جن کی تصدیق کے لیے انفرادی گواہ پیش کئے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ملزم کے ساتھ ساتھ اْس کے گواہان بھی جھوٹی گواہی کی بنیاد پر گواہ سے مجرم بن جاتے ہیں۔ملٹری کورٹ میں کسی بھی کیس کا سپیڈی ٹرائل ہوتا ہے اور کوئی بھی کیس سالوں یا مہینوں نہیں چلتا۔ چند روز میں ہی اْس کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ سزا پانے والے مجرم کو چیف آف آرمی کے سامنے اپیل کا حق ہوتا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف اپیل مسترد کر دیں تو سزا پانے والا مجرم سپریم کورٹ میں آرمی چیف کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر سکتا ہے۔ آخری اپیل صدر کے پاس ہوتی ہے۔ صدر بھی اپیل مسترد کر دے تو ملٹری کورٹ کی سزا پر عمل کر دیا جاتا ہے۔
رہی بات بانی پی ٹی آئی کی تو اْن پر یہ بہت مشکل گھڑی ہے۔ ایسے آثار نظر نہیں آتے کہ سزا سے بچ سکیں گے۔ 9مئی کے بعض اعترافات انہوں نے خو د کئے ہیں جو ریکارڈ پر ہیں۔ میٹریل شہادتیں اور ثبوت فوج کے انویسٹی گیشن بورڈ کے پاس آ چکے ہیں۔ جنرل فیض اور دیگر گرفتار ملزمان کے بیانات سے بھی بانی پی ٹی آئی کے گرد گھیرا تنگ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ بادی النظر میں یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ملٹری کورٹ دستیاب ٹھوس شواہد کی بنیاد پر جنرل فیض اوراْن کے ساتھیوں اور بانی پی ٹی آئی کو آرمی ایکٹ کے تحت سزا سنا دے گی جس کے بعد پی ٹی آئی کو بھی ہر قسم کی سیاسی و غیر سیاسی سرگرمیوں کے لیے ’’بین‘‘ کیا جا سکتا ہے۔ حقائق تو یہی ظاہر کررہے ہیں۔