چینی دنیا کی عظیم قوم ہیں۔ان کی تاریخ درخشندہ اور شاندار ہے۔ دنیا کے چند عجائبات میں شامل گریٹ وال چائنہ کی ہیبت اور شکوہ سے چین کی عظیم تاریخ اور ثقافت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چین کا حیرت انگیز منصوبہ بی آر آئی دنیا کو فتح کر رہا ہے۔ چین کے تین بار صدر منتخب ہونے والے واحد عظیم لیڈر شی چن پنگ نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا اعلان قازقستان میں 2013ء میں کیا۔ دنیا نے اس منصوبے کو چین کا خواب قرار دیا۔ جب یہ خواب حقیقت کا روپ دھارنے لگا تو عالمی طاقتوں کی آنکھیں کھلیں ۔کچھ عرصہ کے بعد بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا نام تبدیل کرکے بی آر آئی Initiative Road Belt رکھ دیا گیا۔اس منصوبے کا پہلا فیز مارشل پلان سے 10 گنا بڑا ہے جو جنگ عظیم کے بعد یورپ کی تعمیر و ترقی کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ اس تاریخی منصوبے کے حجم کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی آئی آر میں 65 ملکوں کی 2630 کمپنیوں نے شراکت کی ہے اور 3.87 ٹریلین ڈالر کے سمجھوتے کیے ہیں-- ایک مستند رپورٹ کے مطابق اس عظیم الشان منصوبے سے 4.6 بلین عوام مستفیض ہوں گے۔ عالمی ماہرین کے مطابق اس عظیم الشان منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے چین کے پاس اہلیت مہارت اور وسائل موجود ہیں۔اس منصوبے کا آغاز کرنے سے پہلے چین کے ماہرین نے دنیا کے مختلف ممالک کی قوموں کی تاریخ ثقافت اور سماجی مسائل کا بغور تحقیقی مطالعہ کیا۔بی آر ائی کے تین زمینی روٹس چین کو ایشیا یورپ اور بحر ہند کے ساتھ منسلک کریں گے۔ چین منگولیا روس کوریڈور روس میں سے گزرتا ہے۔ ایک کوریڈور وسطی ایشیا سے گزرتا ہے اور ایران استنبول اور سپین کے ساتھ مل جاتا ہے۔ چین کی بحر ہند کے ساتھ تین زمینی شاہراہیں منصوبے کا حصہ ہیں۔ نمبر ایک چین انڈو چائنہ اکنامک کوریڈور۔ نمبر دو چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کا شغر زن جیانگ سے گوادر پاکستان تک۔ نمبر تین 2800 کلومیٹر بنگلہ دیش چائنہ انڈیا میانمار اکنامک کوریڈور -
سی پیک بی آر آئی کا علمبردار منصوبہ ہے۔پاکستان اور چین کے درمیان یہ عظیم الشان منصوبہ 20 اپریل 2015ء میں طے پایا اس منصوبے کے معاہدے پر پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف اور چین کے صدر شی چن پنگ نے دستخط کیے اور اس منصوبے کے سلسلے میں 50 ایم او یوز پر دستخط کیے گئے۔ یہ منصوبے 46 بلین ڈالر کے تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سی پیک کے منصوبوں میں پاکستان کے مختلف صوبوں اور علاقوں کے ترقیاتی منصوبوں کو شامل کیا گیا ہے جن میں کاشغر سے گوادر تک شاہراہ کی تعمیر، گوادر پورٹ اور ایئرپورٹ کی تعمیر اور ریلوے نیٹ ورک آئل گیس اور انرجی کے منصوبے شامل ہیں۔ سی پیک سٹریٹیجک نوعیت کا منصوبہ بھی ہے - سی پیک پاکستان کی صنعت کی ترقی کے لیے روشن امکانات رکھنے والا گیم چینجر منصوبہ ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان کی برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ بھی ہو سکے گا۔سی پیک کا مقصد چین اور پاکستان کے پسماندہ علاقوں کو ترقی یافتہ بنانا ہے- پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنا روڈ ریل فضائی انرجی ٹرانسپورٹ کو گوادر اور کراچی کے ساتھ جوڑنا ہے۔ خنجراب سے گوادر تک تعمیر کی گئی شاہراہوں سے دونوں ملکوں کے درمیان ٹرانسپورٹ کے سلسلے میں وقت اور اخراجات کی لاگت کم ہو گئی ہے- مشرق وسطی سے چین کو کم لاگت اور کم وقت میں گیس سپلائی کی جا سکتی ہے-سی پیک کے پہلے مرحلے کے تحت ہزاروں میل کی شاہراہیں مکمل ہو چکی ہیں۔ بجلی کی پیداوار کے سلسلے میں پاور پلانٹس تعمیر ہو چکے ہیں- سولر پاور پلانٹ 2013ء میں اورنج لائن میٹرو ٹرین لاہور میں 2020ء میں مکمل ہوئی-سی پیک کے منصوبے سے پاکستان کے عوام کو روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوئے اور ان کو آمد و رفت کی تیز رفتار سہولتیں بھی میسر آئیں۔بی آر آئی کے تحت دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں جو منصوبے تعمیر کیے جا رہے ہیں ان کا مقصد علاقوں اور عوام کی ترقی اور خوشحالی ہے۔چین کے تمام منصوبے یکطرفہ نہیں بلکہ شراکتی ہیں جن سے چین اور دنیا کے دوسرے ملکوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔پاکستان میں دہشت گردی اور سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے چین کے سی پیک کے تحت منصوبے بروقت مکمل نہیں ہو سکے جن کی رفتار قدرے سست رہی۔ کووڈ 2019ء نے بھی پاکستان میں سی پیک کے منصوبوں کو متاثر کیا۔چین اور پاکستان سی پیک کے دوسرے مرحلے کا خوش اسلوبی کے ساتھ آغاز کر چکے ہیں۔ افسوس کہ بیڈ گورننس کی وجہ سے پاکستان چین سے توقع کے مطابق فائدہ نہیں اٹھا سکا ۔بی آر آئی کے عظیم الشان منصوبے کی وجہ سے امریکہ مختلف نوعیت کے خدشات کا شکار ہے۔اس کا خیال ہے کہ اگر یہ عظیم الشان منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تو اس سے امریکہ اور مغرب کے عالمی اثرات متاثر ہوں گے اور 2024ء تک چین کی جی ڈی پی 7.1 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی-امریکہ نے چین کی ترقی کو روکنے کے لیے اپنے اتحادی ملکوں کے ساتھ مل کر 2021ء میں متبادل منصوبہ جاری کیا تاکہ دنیا کے مختلف ممالک کے لیے بی آر آئی کے متبادل کے طور پر آپشن موجود ہو۔
چین کے بی آر آئی کے عظیم الشان منصوبے سے دنیا بھر میں مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ چار لاکھ افراد کو روزگار کے مواقع ملے ہیں جبکہ 40 ملین غریب عوام غربت کی لکیر سے باہر آ چکے ہیں۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں اس منصوبے کی وجہ سے سماجی ترقی ہوئی ہے، خوشحالی آئی ہے اور آمد و رفت میں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں ۔ تجارت کا پھیلاؤ بڑھا ہے اور ٹیکنالوجی کا تبادلہ ہو رہا ہے۔اس منصوبے کی وجہ سے چین کے سفارتی تعلقات میں اضافہ ہوا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 2023ء تک دنیا کے 150 ممالک بی آر آئی کے منصوبے میں شامل ہو چکے ہیں اور شی چن پنگ کو دنیا کا عظیم لیڈر تسلیم کیا جا رہا ہے۔بی آر آئی منصوبے کی وجہ سے دنیا کے مختلف ممالک کی گورننس میں شفافیت آئی ہے- کرپشن کے امکانات کم ہوئے ہیں کرپٹ اشرافیہ کی بجائے ان علاقوں کے عوام مستفید ہو رہے ہیں۔ورلڈ بینک اور دیگر عالمی اداروں کی مستند رپورٹوں کے مطابق چین نے 22 ملکوں کو معاشی و مالیاتی دباؤ سے باہر نکالنے کے لیے 240 بلین ڈالر کے قرضے دئیے ہیں۔ معتبر عالمی تھنک ٹینکس کی رپورٹوں کے مطابق بی آر آئی کے منصوبے کی تکمیل کے بعد دنیا میں ایک نیا منصفانہ ورلڈ آرڈر رائج ہوگا جس کی قیادت چین کرے گا۔ چین میں منعقد ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں معاشی ماہرین نے اتفاق کیا کہ 2035ء تک چین دنیا کی نمبر ون معاشی قوت بن جائے گا۔ الہامی شاعر اور مفکر علامہ اقبال نے ایک سو سال پہلے چین کے بارے میں جو خواب دیکھا تھا وہ آج پورا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔انہوں نے کہا تھا
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
عظیم الشان منصوبے بی آر آئی کے اثرات
Aug 21, 2024