بدھ، 15 صفرالمظفر، 1446ھ21اگست 2024

افغانستان کی ثالثی کی پیشکش، فضل الرحمن کی دہشت گردی کیخلاف آپریشن کی مخالفت
طالبان حکومت کی طرف سے ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی اس پیشکش پر دل کھول کر قہقہے لگانے کو جی چاہتا ہے۔ کیونکہ یہ تو تمہی نے درد دیا ہے تمہی دوا دینا‘‘ والی بات لگتی ہے۔ جن ہاتھوں سے آپ ہمارے جسم پر زخم لگاتے ہیں۔ انہی ہاتھوں سے ان زخموں پہ مرہم رکھنے کی بات بھی کرتے ہیں۔ کیا دنیا نہیں جانتی یہ تحریک طالبان پاکستان کے مائی باپ کون ہیں۔ انہوں نے کس طرح داعش اور القاعدہ کے ملاپ سے پاکستان کے افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں پنجہ جمایا اور سوات تک اپنی دھاک بٹھا دی عملاً وہاں اپنا راج قائم کیا۔ خواتین کو کوڑے مارے گئے۔ ان پر تعلیم و ہنر کے دروازے بند کر دئیے۔ ملازمت تو دور کی بات ہے۔ بڑی گاڑیوں میں اسلحہ اٹھاتے یہ شہریوں سے ماہانہ اور روزانہ کی بنیاد پر بھتہ بھی لیتے تھے اور پھر، خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ پاک فوج نے دیگر سکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر یہاں سے ان کو مار بھگایا تو اب یہ لوگ افغانستان میں بیٹھ کر انہی کی شہہ پر شرارتوں اور دہشت گردی کی وارداتوں میں حصہ لیتے ہیں۔ بار بار معلومات دینے کے باوجود طالبان حکومت ان کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی۔ شاید انہیں ڈر ہے کہ پھر کہیں یہ فسادی ٹولہ افغانستان میں طالبان کے خلاف کارروائیوں پر نہ اتر آئے یوں طالبان کی ہی مٹی خراب ہو گی۔ اب سرحد پر باڑ لگانے کے باوجود یہ شرپسند دہشت گردی کرنے آتے جاتے ہیں۔ جب پاکستانی افواج ان کا مکو ٹھپتی ہے تو مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی جیسے ہمارے سیاستدان ان امن دشمنوں کی حمایت میں لنگوٹ کس کر میدان میں اترآتے ہیں اور دہشت گردی کی آڑ میں فوجی آپریشن بند کرو جیسے نعرے لگا کر عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ چمن سے لے کر وانا تک امن اسی آپریشن کے باعث ممکن ہوا ہے۔ ورنہ یادش بخیر مولانا فضل الرحمن کا خود ڈی آئی خان میں اور محمود اچکزئی کا چمن میں آنا جانا بھی مشکل ہو چکا تھا۔ آج یہ حضرات کس منہ سے دہشت گردوں کی حمایت میں بولتے اور آپریشن بند کرنے کا کہتے ہیں۔ اس وقت تو اچکزئی کے مسلح باڈی گارڈ اور مولانا کی خاکی وردی والی مسلح فورس کہاں مر کھپ گئی تھی جب یہ جوان ملک میں امن و قانون کی حکمرانی کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے تھے۔ انہی کے جواب میں ان سے بھی دو ہاتھ آگے منظور پشتین کی تحریک نے سامنے آ کر ان کا خلا پْر کیا اور آج وہ بھی ان کے ساتھ مل کر خیبر پی کے میں خوارج کے خلاف آپریشن پر واویلا مچا رہے ہیں۔ اگر افغانستان واقعی پاکستان سے برادرانہ تعلقات میں مخلص ہے تو پہلے وہ ان دہشت گردوں کے حامیوں کے راستے بند کرکے خلوص کا ثبوت دے۔
گرفتار اپوزیشن لیڈر کو پارلیمنٹ میں لانے کی تحریک پر ترک پارلیمنٹ میدان جنگ میں تبدیل
ترکی کی پارلیمنٹ میں معزز ارکان پارلیمنٹ کے درمیان یہ معرکہ آرائی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی تک ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں۔ ہمیں کوئی ڈرا دھمکا نہیں سکتا۔ یہاں قوم سے مراد مسلم امہ ہے۔ ترکوں کا ایک شاندار ماضی یہ بھی ہے کہ انہوں نے عرصہ دراز تک مسلمانوں میں خلافت کی آخری نشانی کو سنبھالے رکھا ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ پارلیمانی روایت موجود ہے کہ اپوزیشن والے کوئی اہم اجلاس ہی کیوں نہ ہو آرام سے چلنے نہیں دیتے۔ شور شرابا ایجنڈے کی کاپی کے گولے بنا کر پھینکنا عام بات ہے۔ کبھی کبھار نوبت گالی گلوچ اور ہاتھا پائی تک آ جاتی ہے۔ مگر چونکہ ابھی تک خوئے غلامی ہم میں موجود ہے۔ اس لیے، ترکوں کی طرح ہم پارلیمان کا احترام خراب نہیں کرتے جو میدان جنگ میں بدل دیتے ہیں اس معزز ایوان کو۔ گزشتہ دنوں دیکھ لیں اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ ان کے ایک گرفتار رہنما کو پارلیمنٹ میں لانے کا آرڈر جاری کیا جائے۔ بس پھر کیا تھا وہاں جو دنگا شروع ہوا۔ اس میں اپوزیشن اور حکمران جماعت کے ارکان نے بہت اچھی طرح ایک دوسرے کی خبر لی۔ 
اس سے تو (اقبال سے معذرت کے ساتھ )
جنگی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں 
نظر آتی ہے اس کی یہ جھلک پارلیمانوں میں۔
کا شاندار نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ خدا کرے ایسی ہی عقابی روح تمام مسلم ممالک میں بیدار ہو مگر وہ آپس میں لڑنے بھڑنے کی بجائے اپنے دشمنوں کے دانت کھٹے کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوں تو ان کی صرف للکار سْن کر ہی بڑے سے بڑے دشمن کے چھکے چھوٹ سکتے ہیں۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اپنی طاقت دشمن کی بجائے خود اپنوں کے ہی خلاف استعمال کر کے ضائع کرتے ہیں۔ چلو یونہی سہی کم از کم ان سب کو ہمارے زور بازو کا اندازہ تو ہو جاتا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
خوراک نہ ملنے کے باعث منگھوپیر کے مگرمھ خونخوار ہو گئے۔
یہ تو ہونا ہی تھا۔ جب 6 مگرمچھوں کے رہنے والے تالاب میں جب 100 سے زیادہ مگرمچھ جمع ہو جائیں گے۔ ان کی جگہ بھی کم پڑے گی اور جن مگرمچھوں کو روزانہ ہزار کلو خوراک کی ضرورت ہے انہیں صرف 12 کلو گوشت ملے گا تو سائیں یہ خونخوار نہیں ہوں گے تو اور کیا مہذب ہو ں گے۔ اب یہ انسان تو ہیں نہیں کہ سڑکوں پر دندناتے ہوئے نکلیں اور اسلحہ کے زور پر چوریاں کریں ، ڈکیتیاں ماریں زیادہ خونخواری پر اترے تو مزاحمت کرنے والوں کو بلادریغ قتل کر دیں۔ یہ بے چارے جانور ہیں آپس میں ہی لڑ جھگڑ کر غصہ نکالتے ہیں۔ پاکستان میں کسی زمانے میں مگرمچھ بھی پائے جاتے تھے مگر یہ آبی و خشکی کا جانور اب ناپید ہو چکا ہے۔ البتہ انسانی روپ میں لاکھوں مگرمچھ آج بھی کھلے عام چل پھر رہے ہیں جو بظاہر تو انسان ہیں مگر فطرتاً مگرمچھ ہیں جو دوسروں کو ہڑپ کر جاتے ہیں۔ منگھوپیر کے مزار کے احاطے میں واقعہ یہ مگرمچھوں کا تالاب کیا محکمہ وائلڈ لائف والوں کی نظر سے اوجھل ہے۔ کیا جنگلی حیات کے تحفظ کی مد میں کروڑوں روپے فنڈ لینے والے ادارے اس تالاب کے اردگرد اچھا ماحول بنا کر اسے وسیع نہیں کر سکتے اور پھر جو مگرمچھ زیادہ ہیں انہیں مختلف چڑیا گھروں میں بھی رکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح ان کے خوراک اور جگہ کی قلت کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ یہ تو مزار پر آنے والے لوگ ان مگرمچھوں کو اور ان کے محافظوں کو نذرانے میں بہت کچھ دے جاتے ہیں۔ 
افسوس کی بات یہ ہے کہ مگرمچھ کراچی جیسے شہر میں قیدیوں کی زندگی گزار رہے ہیں جہاں ان سے زیادہ وحشی خونخوار لوگ آزاد پھرتے ہیں حکومت سندھ وفاقی حکومت ان مگرمچھوں کے تحفظ کے لیے انہیں بھوکے مرنے سے بچانے کے لیے خصوصی اقدامات کرے اور کچھ نہیں تو یہ جو کراچی میں روزانہ ہزاروں من مردہ مرغیاں ہوٹلوں میں کھلائی جاتی ہیں عام بے چارے شہریوں کو۔ یہ مردہ مرغیاں ان مگرمچھوں کے لیے وقف کی جائیں۔ ان کے لیے نیشنل پارک بنایا جائے۔ منگھوپیر کے عقیدت مند بھی صدقے کا گوشت وغیرہ وافر مقدار میں خود لا کر انہیں کھلا سکتے ہیں۔ باقی اِدھر اْدھر مرنے والے مردار جانوروں کو بھی ان کی خوراک بنایا جا سکتا ہے۔ جب ہم انسان جاننے کے باوجود کہ سود، رشوت ، شراب قبضہ حرام ہے بڑے دھڑلے سے کھاتے پیتے اور لیتے ہیں تو ان مگرمچھوں کو حرام مردہ جانور کھانے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن