’’انقلاب‘‘ کی نظامِ کہنہ کے ہاتھوں ناکام ہونے کی ایک اور مثال

Aug 21, 2024

نصرت جاوید

اس کالم کے ذریعے مجھے دو نمبری مجمعہ بازوں کی طرح ’’ہر مرض کا علاج‘‘ فراہم کرتے ’’کشتے بیچنے کی عادت نہیں۔ پاکستانی سیاست کو عالمی تناظر میں رکھے بغیر سمجھنے کی کوشش بھی میری دانست میں کنوئیں کے مینڈک والا رویہ ہے۔ حالات کو مگر تاریخ اور دیگر ممالک کی مثالوں کی مدد سے سمجھنے کی کوشش ہوتو سوشل میڈیا پر مسلط ہوا ’’انقلابیوں‘‘ کا انبوہ مجھ بڈھے کو لکھنے سے ریٹائر ہونے کے مشورے دینا شروع ہوجاتا ہے۔ بے تحاشہ افراد میں اتنی جرات بھی نہیں کہ اپنے حقیقی نام اور تصویر کے ساتھ دل میں آئی بات کہیں۔ میری عمر کے کسی بھی صحافی کو جانے بغیر وہ ہم سب کو ’’لفافہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ اس الزام سے بچنے کے لئے کئی سینئر صحافی تبصرہ آرائی سے گریز اختیارکرچکے ہیں۔ 
بنگلہ دیش جب مشرقی پاکستان تھا تو میں سکول کا طالب علم تھا۔ میٹرک کا امتحان دیتے ہی ’’انقلابی‘‘ہونے کا شوق چڑھا تو خط وکتاب سے ڈھاکہ یونیورسٹی کے سیاسی اعتبار سے متحرک کئی طالب علموں سے روابط استوار کئے۔ ان سے ہوئی گفتگو مجھے احساس کمتری میں مبتلا کردیتی۔ میں یہ محسوس کرتا کہ بنگالی نوجوان ہم پنجابیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ پڑھے لکھے اور منہ پھٹ انقلابی ہیں۔ بنگال کو میں کئی حوالوں سے ثقافتی اعتبارسے برصغیر کا سب سے زرخیز خطہ بھی سمجھتا رہا ہوں۔ اسی باعث 1984ء میں پہلی بار بھارت جانے کا موقعہ ملا تو میں نے دلی کے علاوہ کلکتہ کا ویزا بھی مانگ لیا۔ بھارتی ویزا افسر جوغالباََ را کا نمائندہ بھی تھا میری درخواست پڑھتے ہوئے بہت حیران ہوا۔ وہ کیرالہ کا باسی تھا۔ خود کو وہاں کی پولیس کا افسر بتایا۔ ویزا منظور کرنے سے قبل وہ کرید کرید کرپوچھتا رہا کہ میں کلکتہ کیوں جانا چاہ رہا ہوں۔ نہایت ڈھٹائی سے میں نے وہیں بیٹھے یہ جواز گھڑاکہ بچپن سے ’’کالی ماتا‘‘ کا ذکر سنتا چلا آرہا ہوں۔ سنا ہے کلکتہ میں اس سے منسوب ایک بہت بڑا مندرہے۔ وہاں جاکر جاننا چاہ رہا ہوں کہ ’’کالی ماتا‘‘ درحقیقت کون ہے۔ اس کے علاوہ میں نے مشہور فلم ڈائریکٹر ستیہ جیت کا ذکر بھی کیا اور اس خواہش کا اظہار کہ میں اس سے ملاقات کرنا چاہوں گا۔
میری ڈھٹائی نے اسے مطمئن کردیا۔ دلی پہنچتے ہی میں نے کلکتہ جانے کے لئے ان دنوں ’’تیز تر‘‘ کہلاتی ٹرین ہاوڑہ ایکسپریس‘‘ کی ٹکٹ لی۔ تھرڈ کلاس کے سفر کے دوران بے تحاشہ مسافروں سے ملاقات ہوئی۔ ان سے برجستہ گفتگو کے ذریعے دریافت کیا کہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والا الیکشن راجیو گاندھی تاریخ بناتی اکثریت سے جیت لے گا۔ دلی اور اسلام آباد میں مقیم ’’دانشوروں‘‘ کا اگرچہ اس امر پر اجماع تھا کہ اندراگاندھی کے قتل نے کانگریس کو منتشر وپریشان کردیا ہے۔ ایک طاقتور وزیر اعظم سے محروم ہوجانے کے بعد بھارت کو اب مخلوط حکومت سے گزارہ کرنا پڑے گا۔
کلکتہ میں ایک ہفتہ قیام کے دوران میں نے زیادہ وقت کمیونسٹ پارٹی (مارکسٹ)کے لوگوں کیساتھ صرف کیا۔ وہاں پہنچ کر خوش گوار حیرت یہ دریافت کرنے کی وجہ سے ہوئی کہ کلکتہ شہر کے عین وسط میں کمیونسٹ پارٹی کا سیکرٹریٹ ایک پرشکوہ گھر میں واقع ہے۔ اسے ’’مظفر بھون‘‘ پکارا جاتا تھا۔ یہ مکان پارٹی کے ایک مسلم رہ نما کو ورثے میں ملا تھا جو انہوں نے جماعت کے دفتر کے لئے وقف کردیا تھا۔ اس دفتر کے قریب ایک ٹرام سٹیشن تھا جس کا نام ’’مولاعلی سکوائر تھا‘‘۔اس کے بعد یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کا دفتر مسلم اکثریتی علاقے میں واقعہ تھا۔ اس کے اردگرد گائے اور بھینس کا گوشت بیچنے والوں کی بے شمار کھوکھا نما دوکانیں تھیں۔ دلی کے مقابلے میں لہٰذا کلکتہ مجھے واقعتا سیکولر مزاج کا حامل شہر محسوس ہوا۔ میرا چہرہ اور حلیہ اگرچہ وہاں میرے اجنبی ہونے کا اشتہار تھے۔ دلی کی گلیوں میں ’’غیر ملکی‘‘ ہونے کا احساس نہیں ہوتا تھا۔
بہرحال کلکتہ کے بعد میں تین بار 1990ء کی دہائی میں بنگلہ دیش گیا۔ ہر مرتبہ وہاں دس کے قریب دن گزارے۔ خود کو ڈھاکہ تک محدود رکھنے سے گریز کیا۔ سندربن کا سفرسیاحوں کیلئے ضروری تصور ہوتا ہے۔ میں بھی وہاں گیا مگر زیادہ وقت چٹاگانگ کی سیاست کو سمجھنے میں صرف کیا۔ کھلنا نام کا ایک شہر بھی ہے۔ وہاں صحافیوں کو قبضہ گیرمافیا چن چن کر قتل کررہا تھا۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر وہاں پہنچا اور صحافیوں کے قتل کی وجوہات دریافت کرنے کی احمقانہ بہادری دکھانے کی کوشش کی۔
اتنی لمبی تمہید کا مقصد بنیادی طورپر یہ عرض کرنا ہے کہ بنگلہ دیش میرے لئے اجنبی ملک نہیں ہے۔ اب تو تھک کر جی ہار چکا ہوں۔ چند ہی برس قبل تک آتش مگر ضرورت سے زیادہ جوان تھا اور طالب علمی میں دیکھے خواب ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ کی امید دلاتے رہتے تھے۔ گزشتہ کئی برسوں سے سیاسی امور پر تبصرہ کرنے والےBulge Youth کا تواتر سے ذکر کرتے ہیں۔ اس سے مراد پاکستان جیسے ملکوں میں نوجوانوں کی بے تحاشہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے جو کئی ملکوں میں 60فی صد کی حد پارکرچکی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کی ایجاد نے اس نسل کو ’’آزاد‘‘ کردیا ہے۔ وہ ’’خوئے غلامی‘‘ کی حامل نہیں۔ نئے انداز سے سوچتی ہے اور ’’نظام کہنہ‘‘ سے نجات کو ہمہ وقت آمادہ بھی۔ گزشتہ دہائی کے آغازمیں ’’عرب بہار‘‘ کی حقیقی وجہ نوجوان نسل کے اضطراب کا سوشل میڈیا سے ملاپ بتائی گئی تھی۔ میں یہ جان کر بہت خوش ہوا۔ عمر کے آخری حصے کی جانب بڑھتے ہوئے دل کو یہ سوچتے ہوئے تسلی دیتا کہ’’بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور…‘‘یعنی مصر وغیرہ کے جوان دیکھ لیں گے۔میرا دل توڑنے کو مگر عرب بہار بھی ’’یہ وہ سحر تو نہیں…‘‘ والے انجام سے دو چار ہوئی۔
چند ہفتے قبل بنگلہ دیش میں طلبہ کی تحریک پھوٹ پڑی تو میں دن میں کافی وقت اسے انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ ابتداََ شکستہ خوابوں کی وجہ سے پڑ مردہ ہوئے دل نے یہ تصور کیا کہ شاید بنگلہ دیش کی طلبہ تحریک کا انجام بھی ’’عرب بہار‘‘ جیسا ہوگا۔ میرا خدشہ درست ثابت نہ ہوا تو مجھے خو ش گوار حیرت ہوئی۔ یہ سچ ہے کہ بالآخر فوج ہی نے حسینہ واجد سے استعفیٰ لیا تھا۔ اسے بھارت روانہ کرنے کے بعد مگر بنگلہ دیش کی فوج نے مارشل لاء لگانے کے بجائے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر یونس کو طلبہ تحریک کے رہ نمائوں کی خواہش پر عبوری حکومت کا سربراہ تعینات کردیا۔ حالات مگر سنبھل نہیں پارہے۔ ریاستی بندوبست کے تمام اداروں سے عوامی لیگ کے حقیقی یا مشتبہ حامی اور کارکن چن چن کر برطرف کئے جارہے ہیں یا وہ خود ہی استعفیٰ دے کر زیرزمین چلے گئے ہیں۔
ریاستی اداروں خاص طورپر پولیس کے نظام کا تقریباََ ہوامیں تحلیل ہوجانا بنگلہ دیش کے عام اور غیر سیاسی شہریوں کو خوفزدہ بنائے ہوئے ہے۔ دیہاڑی دار اور محدود آمدنی والے افراد کی کثیر تعداد بھی اس وجہ سے فاقہ کشی کو مجبور ہے۔ بینکنگ کا نظام مفلوج نہیں مگر نہایت سست روہے۔
’’مسلسل انقلاب‘‘ کے برپا کئے خلفشار کا گزشتہ ہفتے کے آخری دنوں میں نہایت غور سے جائزہ لیا۔ اس کے دوران دل میں یہ خدشات امڈے کہ بنگلہ دیش میں طلبہ کا برپا کیا انقلاب بھی شاید ’’عرب بہار‘‘ کے انجام کی جانب بڑھ رہا ہے۔فرضی ناموں سے سوشل میڈیا کے ذریعے ’’انقلاب‘‘ برپا کرنے والوں کی اکثریت کالم چھپنے کے بعد چراغ پا ہوگئی۔ بڈھے کو اب محض ریٹائر ہونے کے مشورے ہی نہیں دئے جارہے۔ مغلظات کی بوچھاڑ بھی جاری۔ من کی بات بیان کرنے سے مگر باز نہیں آئوں گا۔ ’’انقلاب‘‘ کے ’’نظام کہنہ‘‘ کے ہاتھوں ناکام ہونے کی ایک بڑی مثال حال ہی میں ایک اور ملک میں بھی رونما ہوئی ہے۔ موقعہ ملا تو اس کالم میں اس کا ذکر کرتے ہوئے مزید طعنے اور گالیاں سننے کی تیاری کررہا ہوں۔

مزیدخبریں