چند روز قبل افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ نے حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے مابین ثالثی کی پیشکش کا بیان جاری کیا تھا ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دہشت گردوں کا یہ گروہ پاکستان میں امن خراب کرنے کی کارروائیوں میں ملوث ہے اور پاکستان میں نہتے شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ افغان حکومت کے ترجمان نے اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ بھی قرار دیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان متعدد بار سفارتی سطح پر افغانستان حکومت کے سامنے یہ معاملہ اٹھا چکا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے شرپسند، دہشت گرد اور امن دشمن خوارج افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اور افغان حکومت ان کارروائیوں سے بخوبی واقف ہے۔ پاکستان کی طرف سے بار بار اس حوالے افغان حکومت کو کارروائی کے لیے کہا گیا تاکہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات خراب نہ ہوں اور خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکے لیکن افسوسناک امر یہ ہے افغانستان میں طالبان کی حکومت نے ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ یہ سب لکھنے کا مقصد افغان حکومت کو یاد دلانا تھا کہ ان شرپسندوں کے خلاف پاکستان کے دفاعی ادارے متحرک ہیں اور دہشتگردوں کا قلع قمع کر رہے ہیں۔ گذشتہ روز بھی خیبرپختونخوا کے ضلع باجوڑ میں سیکیورٹی فورسز نے پاک افغان بارڈر پر خوارج کی طرف سے دراندازی کی کوشش کو ناکام بناتے ہوئے فتنہ الخوارج کے پانچ دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا ہے۔ کیا افغان حکومت ایسی خبروں سے لاعلم اور ناواقف ہے۔ یہ وہ خوارج ہیں جن کا تعلق براہ راست افغانستان سے ہے اور انہیں ہر طرح کی مدد افغانستان میں بیٹھے امن دشمن کر رہے ہیں۔ ان امن دشمنوں کا خاتمہ ناصرف پاکستان بلکہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے بھی ضروری ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ضلع باجوڑ میں گذشتہ دنوں پاک افغان بارڈر پر خوارج کے ایک گروپ کی نقل و حرکت دیکھی گئی۔ سیکیورٹی فورسز نے مؤثر طریقے سے خوارج کی در اندازی کی کوشش کو ناکام بنایا اور فائرنگ کے تبادلے میں فتنہ الخوارج کے پانچ دہشتگرد جہنم واصل اور چار زخمی ہوئے۔ خوارج سے شدید فائرنگ کے تبادلے میں تین بہادر جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، نائیک عنایت خان، لانس نائیک عمرحیات اور سپاہی وقار خان شہید ہوئے۔ پاکستان افغان حکومت سے کہتا رہا ہے سرحد کے اطراف مؤثر بارڈر منیجمنٹ یقینی بنائے لہٰذا امید ہے کہ عبوری افغان حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی۔ بارڈر مینجمنٹ نہیں ہو گی تو دونوں ملکوں کے لیے مشکلات ہوں گی۔ لہذا افغانستان میں طالبان حکومت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ شرپسندوں کے خلاف کارروائی کرے۔ پاکستان دشمنوں کو ختم کرنے کے لیے دفاعی ادارے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اس جنگ میں دفاعی اداروں کے افسران اور جوان اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں سیاسی قیادت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سیاست کے لیے دفاعی اداروں کو نشانہ مت بنائیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں نقص امن کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہے اور دفاعی ادارے دہشتگردوں کے اس نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں بھی فورسز کے انٹیلی جنس آپریشن میں تین دہشتگرد مارے گئے ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق پنجگور کے ڈپٹی کمشنر ذاکر علی کی شہادت کے تناظر میں سیکیورٹی فورسز نے ضلع مستونگ میں انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن پنجگور کے ڈپٹی کمشنر ذاکر علی کی شہادت کے تناظر میں کیا گیا اس دوران فورسز اور دہشتگردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں بی ایل اے کے تین دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔ آپریشن کے دوران تین دہشتگرد زخمی ہوئے۔آئی ایس پی آ رکے مطابق یہ دہشتگرد علاقے میں دہشتگردی کی متعدد کارروائیوں اور بارہ اگست کو پنجگور کے ڈپٹی کمشنر ذاکر علی کی شہادت کے بھی ذمہ دار تھے۔
دوسری طرف پنجاب حکومت کی طرف سے دو ماہ کے لیے بجلی کے بلوں میں سہولت دینے کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن آمنے سامنے ہے۔پہلی بات یہ ہے کہ اگر پنجاب حکومت نے اپنے بجٹ میں سے بجلی کے معاملے میں سہولت دی ہے تو دیگر صوبوں کو اس کی تقلید کرنی چاہیے لیکن سندھ حکومت اس پر نجانے کیوں پریشان ہے۔ سندھ حکومت نے پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ دونوں جماعتوں کے بڑوں نے ایک دوسرے کو جواب دینے کے بعد پارٹی رہنماؤں کو اس معاملے میں بیان بازی سے روک دیا ہے لیکن اس سے پہلے تک وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کر چکے تھے کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے وزیراعظم میاں شہباز شریف کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اور ایک دوسرے کی مخالف ہیں لیکن حالات نے انہیں اس جگہ لے آئے ہیں کہ ایک دوسرے کا ساتھ دینا مجبوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے اتحاد کو غیر فطری کہا جاتا ہے۔ ویسے سندھ حکومت کو پنجاب کے اس اقدام کا برا نہیں منانا چاہیے تھا۔ یہ عوامی فلاح کا منصوبہ ہے اور اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے اپنے فیصلے خود کرتے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی تو خود کو اٹھارویں ترمیم کی سب سے مضبوط وکیل سمجھتی ہے پھر وہ کیسے ایسے فیصلوں کی مخالفت کر سکتے ہیں۔ اگر وہ اس معاملے میں اپنے صوبے کے لیے کام نہیں کر سکتے تو دوسروں پر تنقید کے بجائے اپنی ناکامی تسلیم کرنا زیادہ بہتر ہے یا پھر عوام کو اعتماد میں لیں کہ اس قسم کے فیصلوں کے بجائے وہ جہاں فنڈز خرچ کر رہے ہیں ان سے عام آدمی کو زیادہ فائدہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ مسلم لیگ ن کو بھی چاہیے کہ اگر وہ پاکستان پیپلز پارٹی کو جواب دے رہے ہیں تو اپنے وفاقی وزیر توانائی سے بھی پوچھ لیں کہ کہ وہ دو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ سے پچاس ارب بچانے کا مشورہ دے رہے ہیں کیا حکومت کا کام روشنی کرنا ہے یا اندھیرا پھیلانا ہے۔ حکومت بجلی سستی کرنے کے منصوبوں پر کام کرے نہ کہ ایسی تجاویز پر کان دھرے کہ لوڈ شیڈنگ کی طرف جائیں۔ چونکہ وزیر موصوف نے خود تو گرمی میں بیٹھنا نہیں اس لیے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے اپنے دفتر میں توانائی کے متبادل ذرائع موجود ہیں یقینا گھر میں بھی ہوں گے اس لیے ان کی زندگی متاثر نہیں ہوتی نہ تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وزیر موصوف تو اس سے بھی ناواقف ہوں گے کہ یہاں تو گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ اس لیے سہولت اور مسئلے کے مستقل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آج سب ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں حالانکہ یہ سب مختلف وقتوں میں حکومت میں رہے ہیں اور آج بھی حکومت کر رہے ہیں۔ 2007 میں یا 2013 میں توانائی کے متبادل ذرائع پر کام کرنا کس کی ذمہ داری تھی۔ ایسا تو نہیں ہے کہ اس وقت ملک میں سولر پینل دستیاب نہیں تھے یا دنیا میں سولر پینل نہیں مل رہے تھے یا بجلی بنانے کے دیگر سستے ذرائع موجود نہیں تھے۔ سب کچھ تھا صرف ایسا کرنے کی نیت نہیں تھی۔ کاش یہ آج ہی الزام تراشی اور سیاسی بیانات کے بجائے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں تو کروڑوں انسانوں کا بھلا ہو سکتا ہے۔ زندگی آسان ہو سکتی ہے۔ یہ دونوں بڑی جماعتیں صحت کی سہولتوں پر بھی ایک دوسرے پر طنز کر رہے ہیں کاش کہ صرف کام کریں۔
آخر میں فیض احمد فیض کا کلام
یہ داغ داغ اْجالا یہ شَب گَزِیدَہ سَحَر
وہ اِنتظِار تھا جِس کا یہ وہ سَحَر تَو نہیں
یہ وہ سَحَر تَو نہیں جِس کی آرزْو لے کر
چَلے تھے یار کہ مِل جائے گی کَہِیں نہ کَہِیں
فَلَک کے دَشت میں تاروں کی آخِری مَنزِل
کَہِیں تَو ہوگا شَبِ سْست مَوج کا ساحِل
کَہِیں تَو جا کے رْکے گا سَفِین غَمِ دِل
جَواں لَہْو کی پْر اَسرار شاہراہوں سے
چَلے جو یار تَو دامَن پہ کِتنے ہاتھ پَڑے
دَیارِ حْسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پْکارتی رَہِیں باہیں بَدَن بْلاتے رَہے
بہت عَزِیز تھی لیکِن رْخِ سَحَر کی لگَن
بہت قَرِیں تھا حَسینانِ نْور کا دامَن
سْبْک سْبْک تھی تَمَنّا دَبی دَبی تھی تَھکَن
سْنا ہے ہو بھی چْکا ہے فِراقِ ظْلمَت و نْور
سْنا ہے ہو بھی چْکا ہے وِصالِ مَنزِل و گام
بَدَل چْکا ہے بہت اَہلِ دَرد کا دَستْور
نِشاطِ وَصل حلال و عذابِ ہِجر حرام
جِگَر کی آگ نَظَر کی اْمَنگ دِل کی جَلَن
کِسی پہ چار ہِجراں کا کْچھ اَثَر ہی نہیں
کہاں سے آئی نِگار صَبا کِدَھر کو گئی
اَبھی چراغ سرِ رَہ کو کْچھ خَبَر ہی نہیں
اَبھی گِرانی شَب میں کَمی نہیں آئی
نَجاتِ دِیدَہ و دِل کی گَھڑی نہیں آئی
چَلے چَلو کہ وہ مَنزِل اَبھی نہیں آئی