سامری کا بچھڑا

شیر افضل مروت پارٹی سے نکالے جانے کے بعد پھر واپس لے لئے گئے ہیں۔ انہوں نے جیل جا کر مرشد سے ملاقات کی۔ باہر آ کر بتایا کہ مرشد نے میرا شاندار استقبال کیا اور مجھے گلے سے گایا۔ لیکن ان کے اس دعوے کی تردید مرشد کی خواہر بزرگ علیمہ خاں نے کر دی اور بتایا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مروت ہوا میں ہانک رہے ہیں۔ 
شیر مروت نے پریس ٹاک میں جنرل فیض حمید پر سخت تنقید کی اور کہا کہ فیض اور باجوے کی جوڑی نے پی ٹی آئی کو نقصان پہنچایا اور یہ جوڑی پی ٹی آئی کیلئے بدنامی کا باعث بنی۔ 
یہ کچھ عجیب سی بات انہوں نے کہی ہے۔ پی ٹی آئی اسی جوڑی کی وجہ سے اقتدار میں آئی۔ اس جوڑی نے باہم ہتھ جوڑی نہ کی ہوتی تو پی ٹی آئی کا برسراقتدار آنا ممکن ہی نہیں تھا۔ اقتدار کے بعد یہ جوڑی، برسراقتدار چوکڑی کا حصہ بن گئی چوکڑی یعنی باجوہ، فیض، عمران اور مرشدانی بشریٰ بیگم۔ ساڑھے تین چار سال یہ چوکڑی ملک بھر میں اودھم مچاتی رہی اور ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ گجرات میں پرویز الٰہی سے پہلے بھی یکے از مشاہیر استاد امام دین گجراتی پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے گجرات کے ہوائی اڈے کی تعمیر پر ایک شاہکار نظم لکھی تھی جس کا لاثانی مطلع کچھ یوں تھا کہ 
گجرات میں بن رہا ہے ہوائی اڈّا 
جس نے کسی بھٹّے پر اینٹ روڑا نہیں چھڈّا 
تو اس چوکڑی نے بھی ملک بھر کو گجرات سمجھ کر کوئی اینٹ چھڈّی نہ روڑا۔ پھر خدا کی کرنی، اس چوکڑی میں پھوٹ پڑ گئی۔ ایک دکّی اِدھر ہو گئی، ایک اْدھر ، خان صاحب اقتدار سے محروم ہوئے، پھر مرشدانی سمیت جیل پہنچ گئے۔ باجوہ نے توسیع کیلئے ہاتھ پائوں مارے، اس وقت کی حکومت کو مارشل لا لگانے کی بھی دھمکی دی ، فیض بھی بالاخر راہی راہ قفس ہوئے اور اب زیر کورٹ مارشل ہیں۔ 
_____
چوکڑی کے افراد اربعہ میں سے ہر ایک کی کہانی دلچسپ عبرت ناک اور تحیّر خیز ہے اور ہر ایک پر ناول لکھا جا سکتا ہے لیکن مرشدانی کی کہانی تو پورا طلسم ہوشربا ہے۔ مرشدانی نے اپنی روحانیت کا ایک قلعہ بنا رکھا تھا جس کے بارے میں اب پتہ چل رہا ہے کہ وہ محض ہوائی قلعہ تھا، نظر کا فریب تھا، صحرائے سیاست کا سراب تھا۔ 
مرشدانی نے خان کو اپنی اسی روحانی طاقت کا اسیر بنا رکھا تھا۔ جب فیض کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹانے کا فیصلہ ہوا تو مرشدانی نے عمران سے کہا، یہ ہٹ گیا تو ہمارا اقتدار بھی نہیں رہے گا لیکن تم فکر نہ کرو، میرے پاس ایسا علم ہے، ایسا جادو ہے جسے جگائوں گی تو کوئی مائی کا لال یہ تبادلہ نہیں کر سکے گا۔ بعدازاں پتہ چلا کہ بنی گالہ کے جنگلوں سے الّو، چمگادڑ وغیرہ غائب ہونے لگے ہیں، کئی کئی ہزار مرغیوں کے آرڈر بھی پولٹری کی دکانوں کو وصول ہوئے اور کچھ پراسرار پتلے بھی جنگل سے ملے جن پر سوئیاں چبھوئی گئی تھیں۔ یہ پتلے چھپا کے رکھے گئے تھے لیکن خفیہ ایجنسیوں نے انہیں ڈھونڈ نکالا۔ 
یوں عملیات ناکام ہو گئیں، فیض کا تبادلہ نہ رک سکا، وہ ہوا اور پھر حکومت کیخلاف تحریکِ عدم اعتماد آ گئی۔ اطلاع ہے کہ مرشدانی نے پھر ھون سلگایا، ہرمل کے دانے چھڑکے کہ تحریک ناکام ہو لیکن یہ ھون بھی ٹھنڈا ہو گیا، گرما گرم تحریک عدم اعتماد ڈرامائی انداز سے کامیاب ہو گئی۔ 
____
فیض پھر بھی خان کی آنکھ کا تارا تھا، باجوہ اگرچہ میر جعفر ٹھہرایا جا چکا تھا لیکن اچانک ، غیر متوقع طور پر فیض کو پکڑ لیا گیا اور خبریں آنے لگیں کہ فیض سے تفتیش میں بہت کچھ خطرناک مواد ملا ہے، خان کی خیر نہیں تو اچانک پی ٹی آئی فیض کے خلاف ہو گئی اور اب شیر مروت نیازی نے بھی کہہ دیا کہ فیض باجوے کی جوڑی نے منّی کو بدنام کر دیا۔ 
منّی کو اکیلے فیض نے نہیں، پوری چوکڑی نے بدنام کیا اور چوکڑی کے عناصر اربعہ میں فیض و باجوہ ہی نہیں، خان اور مرشدانی بھی شامل ہیں ہاں، یہ ہے کہ 9 مئی میں باجوہ ملوث نہیں تھا، باقی رہ گئی تثلیث جس نے 9 مئی تو کیا ہی تھا، اب ایک اور نو مئی کی تیاری تھی لیکن اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے والا معاملہ ہو گیا۔ 
نئے 9 مئی کے لئے، معتبر ذرائع کے مطابق، فیض کا پلان یہ تھا کہ خود فیض کی یقین دہانی خان کو یہ تھی کہ میں 8 فروری کے الیکشن کو کالعدم قرار دلوانے کا فیصلہ کروا لوں گا۔ پھر حکومت گر جائے گی، ایمرجنسی یا مارشل لا لگانا مجبوری بن جائے گی اور ہم اپنے باہر والے دوستوں سے مداخلت کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور یوں ہمارے پو ایک بار پھر بارہ ہو جائیں گے۔ 
باقی پلان تو اپنی جگہ، انتخابات کالعدم قرار دینے والا فیصلہ موصوف نے کیسے لے لیا تھا؟۔ یعنی معاملہ خصوصی سیٹوں والے فیصلے سے بھی آگے لے جانے کے قول و قرار ہو چکے تھے۔ 
____
بہرحال، اب تو نیّا چلنے سے پہلے ہی اس کے پیندے میں سوراخ ہو گیا۔ فیض کا نیٹ ورک یہاں وہاں جہاں تہاں سرگرم تھا، اس پر ہاتھ ڈال دیا گیا ہے۔ ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سارے کا سارا نیٹ ورک پکڑا گیا۔ کئی حصے کیا پتہ اس کے ابھی نظروں سے بچے ہوئے ہوں…
فیض سامری تھا اور پتہ چلا کہ پی ٹی آئی اس کا بچھڑا۔ دونوں جیل میں ہیں۔ سامری اوّل کے بچھڑے کو آگ میں پگھلا کر تحلیل کر دیا گیا تھا۔ سامری ثانی کا بچھڑا بھی برنگ دگر تحلیل ہونے کے عمل سے گزر رہا ہے۔ 
بعض احباب کا کہنا ہے کہ یہ بچھڑا تحلیل نہیں ہو گا۔ اس طرح کے ایکشن سیاسی پارٹیوں کے خاتمے کا باعث نہیں بن سکتے۔ بجا فرماتے ہیں لیکن زیر نظر بچھڑا سیاسی پارٹی نہیں ہے، ایک کلٹ ہے۔ اور کلٹ جس طرح بنا کرتے ہیں، اسی طریقے سے تحلیل بھی ہو جایا کرتے ہیں۔ کلٹ کا بچھڑا کہیئے یا بچھڑے کا کلٹ کہیئے، بات ایک ہی ہے اور انجام بھی ایک۔

ای پیپر دی نیشن