تحریر: فیصل ادریس بٹ
میاں نواز شریف نے حال ہی میں وزیر اعلی پنجاب کے ہمراہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کرنے کے اعلان کے ساتھ کچھ گلے شکوے بھی کیے ہیں۔ میاں نواز شریف پاکستان کے تین بار کے وزیر اعظم اور قومی امنگوں کے ترجمان رہبر کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کو ایشیین ٹائیگر بنانے کا خواب دیکھنے والے واحد سیاستدان ہیں۔ انہون نے اپنے اس نعرے کی تکمیل کیلئے بہت سے نشیب وفراز کا سامنا کیا اور اس دوران انہیں مائنس کرنے کیلئے بہت سی کوششیں ہوئیں لیکن وہ آج بھی پاکستان کے روشن مستقبل کی واحد امید کے طور پر قومی سیاست میں مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔ 28مئی کو مسلم لیگ (ن) کے جنرل کونسل اجلاس میں میاں نواز شریف بلامقابلہ پارٹی صدر منتخب ہو گئے۔ اس موقع پر میاں نواز شریف نے کہا آج پارٹی اراکین نے ثاقب نثار کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ 21فروری 2018ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے ایک فیصلہ کے ذریعے میاں نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی صدارت کیلئے نا اہل قرار دیدیا تھا۔ قبل ازیں 28جولائی 2017ء کو انہیں پانامہ کیس میں سزا سناتے ہوئے وزارت عظمیٰ کیلئے بھی نا اہل قرار دیا جا چکا تھا۔ ان فیصلوں کے بعد میاں شہباز شریف پارٹی کے صدر اور شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے تھے۔ میاں نواز شریف کیلئے ابتلا کا دور یہیں ہی ختم نہیں ہوا بلکہ 6 جولائی 2018ء کو انہیں ایون فیلڈ ریفرنس میں دس سال جبکہ اسی سال 24 دسمبر کو العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں سات سال قید کی سزا بھی سنائی گئی۔ میاں نواز شریف قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور دسمبر 2018ء سے نومبر 2019ء کے دوران دل کی تکلیف کے باعث لاہور کے مختلف ہسپتالوں میں بھی زیر علاج رہے۔ اکتوبر 2019ء کی ایک رات جب نواز شریف نیب کی زیرِ حراست تھے تو ان کی بگڑتی صحت کی خبریں میڈیا میں آنا شروع ہوئیں۔ نواز شریف کو سروسز ہسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں ان کے پلیٹ لیٹس خطرناک حد تک گرنے کی خبریں میڈیا کی زینت بنیں۔ ان کے وکلاء کی جانب سے طبی بنیادوں پر ان کی ضمانت پر رہائی کی درخواست دائر کی گئی‘ 16 نومبر 2019ء کو لاہور ہائی کورٹ نے میاں نواز شریف کو علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت دیدی۔ اس طرح وہ عمران خان کے دور حکومت میں 19نومبر 2019ء کو علاج کیلئے بیرون ملک چلے گئے جہاں سے وہ 21 اکتوبر 2023 کو وطن واپس آئے۔ 8فروری 2024ء کو ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور اس نے مرکز اور پنجاب میں اپنی حکومتیں بھی قائم کر لیں۔ میاں نواز شریف انتخابات میں کامیاب ہونے کے باوجود چوتھی مرتبہ وزیراعظم نہیں بنے اور میاں شہباز شریف دوسری بار ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ میاں نواز شریف کی پارٹی صدارت سے نا اہلی کے بعد میاں شہباز شریف بطور پارٹی صدر تمام معاملات چلا رہے تھے تاہم اب مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل نے پارٹی کی صدارت کا تاج ایک بار پھر میاں نواز شریف کے سر سجادیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ شریف خاندان کے تذکرہ کے بغیر نامکمل تصور کی جاتی ہے۔ یہ خاندان گزشتہ چار دہائیوں سے زائد پاکستان کی سیاست کے کئی نشیب و فراز دیکھ چکا ہے۔ ایک طرف اس نے اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک رسائی حاصل کی تو دوسری طرف قیدوبند اور جلاوطنی کی زندگی بھی گزاری۔ اس خاندان کے اہم ترین فرد میاں نواز شریف نہ صرف تین بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے بلکہ انہیں دو بار ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس فیملی کے دوسرے اہم فرد میاں شہباز شریف دوسری بار وزیراعظم جبکہ تین بار پنجاب کے وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ شریف فیملی کے سربراہ میاں محمد شریف کا جنرل ضیاء الحق سے قریبی تعلق رہا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں ہی میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر خزانہ اور بعدازاں 1985ء میں وزیر اعلیٰ بنے۔ 1990ء کے عام انتخابات کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد نے کامیابی حاصل کی تو میاں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنے۔ 90 کی دہائی کو پاکستانی سیاست کی بدترین دہائی بھی کہا جاتا ہے‘ جب دو سیاسی جماعتوں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے اقتدار کی خاطر ایک دوسرے پر بدترین الزامات لگائے۔ 1997ء کے انتخابات میں دو تہائی سے زائد اکثریت لیکر میاں نواز شریف ملک کے طاقتور وزیراعظم بن گئے اور اس وقت کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ دوسری بار وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے والے میاں نواز شریف کی حکومت کا محض اڑھائی سال بعد ہی تختہ الٹ دیا جائے گا۔ 12اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کر کے انہیں پابند سلاسل کر دیا۔ نواز شریف کو پہلے راولپنڈی پھر ملیر جیل اور اس کے بعد اٹک قلعہ میں قید رکھا گیا۔ دہشت گردی، طیارہ ہائی جیکنگ، اقدام قتل اور بد عنوانی کے الزامات کے تحت میاں نواز شریف کو عمر قید اور 14سال قید کی سزائیں سنا دی گئیں۔ بعدازاں ایک مبینہ معاہدہ کے تحت شریف فیملی 10دسمبر 2000ء کو جلا وطن ہو کر سعودی عرب چلی گئی۔ سعودی عرب قیام کے دوران 2004ء میں میاں محمد شریف کا انتقال ہوا۔ نواز شریف نے 2008ء کے عام انتخابات سے پہلے لندن میں بے نظیر بھٹو سے میثاق جمہوریت کیا اور پہلی بار 10 ستمبر 2007ء کو پاکستان آنے کی کوشش کی لیکن انہیں ایئر پورٹ سے واپس بھجوا دیا گیا۔ دوسری بار 25 نومبر 2007ء کو لاہور کی سر زمین پر اترے تو ان کا شاندار استقبال ہوا۔ 2008ء کے انتخابات میں حصہ لینے کی انہیں اجازت نہ ملی تاہم ان کی جماعت نے وفاق میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی جبکہ پنجاب میں حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہوگئے اور میاں شہباز شریف دوسری بار صوبہ کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ 2013ء کا انتخابی میدان سجا تو میاں نواز شریف بھی عملی سیاست میں دوبارہ اِن ہو گئے اور انہوں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے وفاق اور پنجاب میں کامیابی حاصل کر لی۔ 13 سال 7 ماہ اور 18 دن بعد میاں نواز شریف نے بطور رکن اسمبلی پارلیمنٹ ہاؤس میں داخلے کے ساتھ تیسری بار وزیر اعظم بن کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔ 14 ماہ کال کوٹھڑی کی قید، 6 سال اور 11 ماہ سے زائد کی جلا وطنی اور وطن واپسی پر 5 سال 6 ماہ کی سیاسی جدوجہد کے بعد میاں نواز شریف ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے جبکہ صوبہ پنجاب میں میاں شہباز شریف مسلسل دوسری بار وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب ہو گئے۔ اب میاں نواز شریف 6سال تین ماہ بعد دوبارہ پارٹی کے صدر بن گئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں میاں نواز شریف ایک اٹل حقیقت ہیں۔ اپنے چار دہائیوں سے زائد سیاسی کیریئر کے دوران انہوں نے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ ان کے سیاسی کیریئر کے دوران کئی بار ان کی سیاست ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کے دعوے کیے گئے لیکن ہر بار وہ سرخرو ہوئے اور تجزیہ کاروں کی پیشگوئیوں کو بھی غلط ثابت کیا۔ آج میاں نواز شریف ایک ایسے وقت میں دوبارہ پارٹی کے صدر منتخب ہوئے ہیں جب مسلسل ایک عشرے سے زائد تک انہیں بطور سیاستدان اور پاکستان کے سب سے مدبر رہنما کی حیثیت سے تاریخ کے بد ترین پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی کردار کشی کیلئے ہر طرح کے وسائل کا آزادانہ وبے دریغانہ استمعال کیا گیا لیکن اس کے باوجود وہ پاکستان کے سیاسی افق پر امتیازی اہمیت کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔ اسے نواز شریف کی قسمت کہیے یا پاکستان کی تقدیر کہ آج بھی میاں نوازشریف پاکستان کے سنہری و روشن مستقبل کی تلاش میں مصروف عمل ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف وزیراعظم پاکستان جبکہ ان کی صاحبزادی مریم نواز پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہو چکی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پارٹی صدارت سنبھالنے کے بعد وہ ملکی سیاست میں کس حد تک اپنا موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا یہ کردار ہی ان کے سیاسی مستقبل کا تعین کرے گا حالانکہ وہ ماضی کی طرح پھر سے اپنا مائنڈ سیٹ عیاں کرچکے ہیں۔ جب انہوں نے پڑوسی ملک کے الیکشن کے بعد نریندر مودی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ نفرت کو امید سے بدلیں اور خطے کے دو ارب انسانوں کے مستقبل کو ترقی اور فلاح سے محفوظ بنائیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جو نوازشریف کی آئندہ سیاست کا محور ہوسکتا ہے۔ اگر اس خطے کے عوام اپنے باہمی اختلافات کو سمیٹ کر اجتماعی ترقی کی جانب بڑھیں تو خوشحالی کا نیا دور شروع ہوسکتا ہے۔ لیڈرشپ کا کام یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم کو راستہ دکھا دے۔ نوازشریف نے ماضی کی طرح ایک بار پھر قوم کو راستہ دکھا دیا ہے لیکن انہیں پہلے بھی پاکستان کا دفاع مظبوط بنانے کی اور کبھی سی پیک کے آ غاز کی وجہ سے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مہروں نے اقتدار سے محروم کیا، اب کی بار نوازشریف کی کامیابی یقینی نظر آرہی ہے۔ کیونکہ دنیا بدل چکی ہے۔ اب دنیا بھر میں اجتماعی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہورہا ہے۔ تو کیا یہاں ایسا ممکن ہے اس کا دارومدار میاں نوازشریف کی سوچ پر عمل سے ہی ہوسکتا ہے اور شاید نوازشریف کی قیادت اور ویژن ہی پاکستان کا مستقبل ہے۔
قوم کے رہبر و رہنما تقدیر پاکستان میاں نوازشریف
Aug 21, 2024