دنیا شاہد ہے کہ تحریکیں نعروں سے نہیں بلکہ ان سرفروشوں سے چلتی ہیں جو پرخلوص، ریا سے پاک اور نصب العین کے داعی ہوتے ہیں۔ جب ان اولوالعزم کارکنوں کو عنانِ تحریک ملتی ہے تو یہی تحریکیں انقلاب کا رخ کرتی ہیں۔ صد حیف کہ میرے وطن کی سیاست میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں خون دینے والے مجنوں اور چُوری کھانے والے مجنوں اور ہوتے ہیں۔ منزل عموماً ان لوگوں کے ہاتھ آتی ہے جو کبھی اس جانبِ منزل کے راہی بھی نہیں ہوتے۔مجھے یاد ہے جب ضیاء الحق کی آمریت پنجے گاڑ چکی تھی، بھٹو صاحب کو پھانسی ہوچکی تھی، مصطفی کھر اور کئی دوسرے نامی گرامی پارٹی لیڈران جرنیلوں سے ہاتھ ملا چکے تھے، پیپلز پارٹی کی دوسرے درجے کی قیادت عقوبت خانوں میں تھی، تب ایک سادہ اور پرخلوص لاہوریا ملٹری کورٹ کے فیصلے پر کوڑے کھا رہا تھا۔ وہ اسے پیٹ تو سکتے تھے مگر توڑ نہیں سکتے تھے۔ یہی جہانگیر بدر تھا کہ جس نے محترمہ کے ملک واپسی کو یادگار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس پر سیاسی مقدمات بنے مگر اسکی سیاسی وفاداری خریدی نہ جاسکی۔ پھر دوسری آمریت آئی، جب لیڈرشپ خودساختہ جلاوطن تھی مگر جہانگیر بدر ایک بار پھر شاہ کی وفاداری سے منکر تھا۔ زمانہ طالب علمی سے حق گوئی کی سرشت اسے کبھی بازار کی جنس نہ بنا سکی۔ وہ آج پارٹی کا سیکرٹری جنرل ہے تو انہی قربانیوں اور نظریاتی اساس کی بنیاد پر ہے۔ یہ اسکی اطاعتِ نظم ہے جس نے اسے کسی بھی بغاوت سے روکے رکھا۔ وہ مہر بہ لب رہا حتیٰ کہ سلمان تاثیر جیسے موقع پرست گورنر پنجاب بنا دئیے گئے۔ امتیاز صفدر وڑائچ کو صوبہ پنجاب پارٹی کا صدر مقرر کردیا گیا اور اب ججوں کے نام پر رشوت کے حوالے سے معروف، جعلی ڈگری والے معروف وزیر کہ جن کے سیاسی دامن میں سوائے حبِ زرداری کے کچھ نہیں، جہانگیر بدر کی جگہ لینے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ شاید یہ سادہ مڈل کلاسیا جاگیرداروں کی پارٹی میں زیبا نہیں ہے۔ وہ جس کی جوانی جدوجہد کی نذر ہوگئی، اب اسکا سیاسی کیرئیر بھی کاسہ لیسوں کی نذر ہونیوالا ہے۔ یہ پیپلز پارٹی کا امتحان ہے کہ وہ قربانیوں کو اہمیت دیتی ہے یا قربانیوں کا گوشت کھانے والوں کو…!ادھر ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت میں ایک اور سیاسی دیوقامت ہے کہ جس کا قد اسکی قیادت سے بھی اونچا ہے۔ جوانی میں غلام مصطفی کھر کے ہتھکنڈوں کے سامنے ڈٹ جانے والا جاوید ہاشمی ہر آمریت کا باغی رہا۔ میاں نوازشریف کی کابینہ میں وہ ان چند وزراء میں سے تھا کہ جن پر کرپشن کا الزام تک نہ لگایا جاسکا۔ جب مسلم لیگ (ن) کی قیادت سعودی عرب سدھار گئی تھی تو جاوید ہاشمی ہی نے پارٹی اور اسکے اصول کو زندہ و جاوید رکھا اور اسے ببانگ دہل انکارِ آمریت سے روکا نہ جاسکا لہٰذا ایک فرضی بغاوت کے الزام میں پابندِ سلاسل کردیا گیا۔ میرے علم میں وہ واحد سیاستدان ہے کہ جس کو ہونیوالی سزا کی مخالفت اسکے بدترین سیاسی مخالفوں نے بھی کی۔ یہ اسکی وفاداری، اصول پرستی اور راست گوئی کا ہی ثمر تھا کہ وہ جہاں سے بھی الیکشن میں کھڑا ہوا، عوام نے ووٹ نچھاور کردئیے مگر جب پارٹی پر اچھے دن آئے، قائدین کو وطن واپسی نصیب ہوئی، پارلیمنٹ میں زیادہ نشستیں ملیں تو اس مقابلِ طوفاں کو نظرانداز کرکے پارلیمانی لیڈرشپ ان صاحب کو سونپی گئی جن کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کھلا راز ہیں۔ ہاشمی تب بھی سرخرو نکلا کہ یہ بے انصافی تو برداشت کرلی مگر پارٹی ڈسپلن کے باعث قائدین کو رسوا نہ کیا۔ وہ ایک مرتبہ جنبشِ ابرو سے پارٹی چھوڑنے کا عندیہ تو دیتا، ساری سیاسی جماعتیں پلکیں بچھا دیتیں مگر وہ اس دکھ کو پی گیا جس کا نتیجہ برین ہیمبرج کی صورت میں نکلا۔ جسے مخالف نہ توڑ سکے اسے اپنوں کی بے وفائی نے توڑ دیا۔ میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کو کہ جہاں کارکنان کی قدر کی جاتی ہے۔ جہاں مڈل کلاس کے فیصل سبزواری کو بھی ٹکٹ مل جاتا ہے اور جہاں ڈاکٹر وسیم اختر جیسے بے ریا کو صوبائی امیر بنا دیا جاتا ہے۔ مستقبل انہی کا ہے جن کا ظرف وسیع تر اور وژن وسیع النظر ہے۔
ستاروں کی روشنی میں 21 دسمبر کا چاند گرہن ملکی و سیاسی حالات پر گہرے اثرات مرتب کریگا۔ سردست مخلوط حکومت کے قائم رہنے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔