لاہور(بی بی سی ڈاٹ کام ) تین دسمبر کولاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک عمر رسیدہ خاتون کو اپنی گولی کا نشانہ بنایا۔ یہ خاتون 72سالہ برگیتا المبیتے تھیں جو شہری تو سویڈن کی تھیں لیکن گذشتہ اڑتیس برس سے ان کا گھر پاکستان تھا اور ان کا جینا مرنا پاکستان کے دکھی اور غیرمراعات یافتہ طبقے کے ساتھ رہا۔کئی دن برگیتا جناح ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہیں پھر انہیں سویڈش سفارتخانے کے اہلکار واپس لے گئے اور پاکستان چھوڑنے کے دو روز بعد برگیتا نے دنیا ہی چھوڑ دی۔برگیتا نے ایسا کیا کیا تھا کہ کسی کو انہیں پاکستان سے نکالنے کے لیے دنیا ہی چھڑانی پڑی۔ سسٹر برگیتا نے یوحنا آباد میں یتیم بچیوں کے لیے ایک ہوسٹل قائم کررکھا تھا۔برگیتا لاہور کے علاوہ سندھ اور فیصل آباد میں بھی اسی طرح کے ہوسٹل اور ووکیشنل ٹریننگ کے ادارے چلا رہی تھیں۔برگیتا کیس کے تفتیشی افسر احسان الحق ہاشمی کے مطابق پولیس مختلف زاویوں سے اس مقدمے کی تفتیش کررہی ہے تاہم یہ ایک حساس کیس ہے ابھی تک جو پیشرفت ہے اسے منظرعام پر نہیں لایا جاسکتا۔ اسی برس جنوری میں پنجاب کے شہر ملتان کی فورٹ کالونی میں سیلاب متاثرین کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے دفتر سے دو غیرملکی کارکنوں کو اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ کوٹ ادو میں سیلاب متاثرین کی بحالی کے پراجیکٹ پر کام کرنے کے بعد واپس دفتر آئے۔ ابھی تک اس کیس کا معمہ حل نہیں ہوسکا۔گذشتہ برس اگست میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاو¿ن سے ہی امریکی ڈاکٹر وارن وائنسٹین کو اغوا کیا گیا۔ ڈاکٹر وارن پاکستانی حکومت اور یو ایس ایڈ کے اشتراک سے پاکستان کے شورش زدہ علاقوں کے عوام کو چھوٹے کاروبار کی ترغیب دینے کے منصوبے پر کام کررہے تھے۔ ان کے اغوا کاروں نے انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو بھی ریلیز کی لیکن ڈاکٹر وارن تاحال لاپتہ ہیں۔ان تمام مقدمات کی تفتیش جس بھی مرحلے میں ہو فی الحال زمینی حقیقت تو یہی ہے کہ اپنے ملکوں کی آسائش اور تحفظ کو چھوڑ کر پاکستان کے پسے ہوئے عوام کے لیے کام کرنے والے ان مسیحاو¿ں اور ان کے خاندانوں کو تو یہاں سے ان کی خدمات کا کوئی اچھا صلہ نہیں ملا۔