جناب عبدالعلیم قمر کا مضمون ”فوجی ایکشن بند کر کے سقوط ڈھاکہ سے بچا سکتا تھا“ نوائے وقت میں نظر سے گزرا۔ موصوف لکھتے ہیں ”25مارچ 1971ءکو آرمی بٹالین نے مجیب الرحمن کوگرفتار کر کے اسی رات مغربی پاکستان بھیج دیا۔ عوامی لیگ نے احتجاج کا راستہ چن لیا جبکہ پاکستانی افواج نے اس احتجاج کو کچلنے کی راہ اپنائی۔ مغربی پاکستان سے جنرل ٹکا خان کو اپریشن کے لئے بھیجا گیا۔ ٹکا خان کو ایک نکاتی ایجنڈا دیا گیا کہ عوام کی بجائے زمین پر ہر حال میں قبضہ برقرار رکھا جائے۔“
مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو راقم جی ایچ کیو راولپنڈی میں تعینات تھا۔ مارچ 69میں جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاءنافذ کر دیا اور کرسی صدارت پر براجمان ہوئے۔ پھر ایک دن میں نے لیفٹیننٹ جنرل یعقوب (گورنر مارشل لاءایڈمنسٹریٹر مشرقی پاکستان) کو اپنے دفتر کے پاس سے گزرتے دیکھا جو جنرل یحییٰ خان کو اپنا استعفیٰ پیش کرنے جا رہے تھے۔ ان کے ساتھ سٹاف افسر میرے دوست بریگیڈائر العدروس تھے جو مجھے ملنے آئے۔ بتانے لگے کہ ”مشرقی پاکستان کے حالات قابو سے باہر ہو چکے ہیں۔ جب ہم ایک بریگیڈ مانگتے تھے تو فوج کی ایک کمپنی بھیج دی جاتی تھی۔ ابھی ایک لاکھ مسلح مکتی باہنی گوریلوں نے آفت مچا رکھی ہے۔“ 71ءمیں راقم کی پوسٹنگ اسلام آباد حساس ادارے میں ہوئی۔ نئے دفتر میں میز پر لارج سائز فوٹوز کا بنڈل پڑا تھا۔ دیکھ کر پسینے چھوٹ گئے۔ یہ فوٹوز مشرقی پاکستان میں ان ذبحہ خانوں کی تھیں جہاں مغربی پاکستان کے مردوں کو ذبح کیا جاتا تھا۔ بچوں کے ذبح خانے علیحدہ تھے۔ ان ذبحہ خانوں سے دور دور تک جمے ہوئے خون کی تہیں دکھائی دیتیں۔ انسانی ڈھانچے بکھرے پڑے تھے جہاں آوارہ کتوں اور گدھوں کی بہتات تھی۔
خبریں آ رہی تھیں کہ مکتی باہنی گوریلے شہروں، دیہات سے مغربی پاکستانیوں کی جوان عورتوں کی ننگے جلوس نکال رہے ہیں۔ پھر شام کے وقت سکول اور کالج کی عمارات میں لے جا کر انہیں ریپ کیا جاتا ہے۔ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجی اور پیرا ملٹری فورسز کے افسروں، جے سی اوز اور جوانوں کا قتل عام شروع ہو چکا تھا۔ بعض دفعہ ایسا ہوا کہ یہ لوگ جب ڈیوٹی سے گھر واپس آتے تو بیوی بچوں کی لاشیں ملتیں۔ عورتوں کو ریپ کر کے مارا جا رہا تھا۔ بچے ذبح ہو رہے تھے۔ بعض آرمی یونٹوں کے غیربنگالی کمانڈروں کو بنگالی افسروں نے باندھ کر ان کی بیویوں کو بلا کر سامنے ریپ کیا پھر انہیں قتل کر ڈالا جن میں کرنل شاہ پور خان کا نام قابل ذکر ہے۔
جب ظلم و بربریت کی انتہا ہو جائے پھر تو کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ دیر، باجوڑ، مالا کنڈ میں فوجی ایکشن کرنا پڑا۔ اس لئے کہ وہاں حکومتی رٹ ختم کر دی گئی تھی۔ آج تک وہاں سول حکمرانی قائم نہیں ہو سکی۔ مشرقی پاکستان میں بنگالی احتجاج نہیں کر رہے تھے۔ وہاں تو بھارت سے پراکسی وار ہو رہی تھی جس کا آغاز بھارتی نیتاﺅں نے ستر ہزار مسلح فوجی سول کپڑوں میں بھیج کر کیا۔ مسٹر مرار جی ڈیسائی سابق بھارتی وزیراعظم نے 1975ءمیں اٹلی کی مشہور صحافی خاتون اوریانا فلاسی نے انٹرویو لیتے وقت ان سے 1971ءکی جنگ کے متعلق سوال کیا تو ڈیسائی نے جواب دیا ”1971ءجنگ کی تیاری، رغبت اور تپش اندرا گاندھی کی مرہون منت ہے۔ اندرا نے مشرقی پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں بھارتی مسلح فوجی سول کپڑوں میں مکتی باہنی کا نام دے کر داخل کر دیے۔“
مشرقی پاکستان میں جب بھارتی گوریلوں نے عوامی لیگ کے غنڈوں سے مل کر ظلم و ستم کی انتہا کر دی تو حکومت پاکستان کو فوجی ایکشن کرنا پڑا۔ یہ کام جنرل ٹکا خان کے سپرد کیا گیا۔ جب ٹکا خان مشرقی پاکستان پہنچے اس وقت تک بھارتی گوریلوں اور مکتی باہنی نے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ فوجی، نیم فوجی اور سول افراد کا صفایا کر دیا تھا۔ ٹکا خان کے فوجی اپریشن میں 5ہزار بھارتی گوریلا فوجی پاک فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔ پھر بھارتی فوج کے چیف آف سٹاف اندرا گاندھی کے پاس گئے اور کہنے لگے ”اس طرح بھارتی فوجیوں کی مزید قربانی نہیں دی جا سکتی۔ فوجوں کا مورال گر رہا ہے۔ آپ یا تو ان کو بیرکوں میں واپس بلا لیں یا پھر پاکستان کے خلاف جنگ کا اعلان کریں۔“ ان الفاظ پر اندرا نے اعلان جنگ کر دیا۔ وہ جنگ جیت گئی اس لئے کہ پاکستان کے سربراہ یحییٰ خان نااہل عیش پرست تھا جس نے امریکہ کے دباﺅ میں آ کر جنرل ٹکا خان کو واپس بلا کر جنرل نیازی کو مشرقی پاکستان بھیج دیا اور ساتھ ہی عام معافی کا اعلان کر دیا جس سے بھاگے ہوئے بھارتی مسلح گوریلے واپس آ گئے اور قتل عام پھر شروع ہو گیا۔
اب یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بنگلہ دیش کی منصوبہ بندی اکیلے بھارت کی نہ تھی بلکہ اس میں بین الاقوامی طاقتیں شریک تھیں۔ روس اور اسرائیل نے 71ءجنگ میں بھارت کو ائر ڈیفنس مہیا کیا تھا۔ روس کی جنگی کشتیوں نے پاک نیوی کا بہت نقصان کیا۔ ہنری کسنجر اس وقت امریکی وزیر خارجہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے ”ہم چاہتے تھے کہ بنگلہ دیش بن جائے۔“
مجیب الرحمن جس نے (59ئ) نیشنل اسمبلی میں پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ رکھنے کی سخت مخالفت کی تھی اور اعلانیہ کہا تھا کہ اسلام moted out مذہب ہے اس کے اگرتلا کیس میں مجرم بننے کے بعد بھی درپردہ ملک دشمن غیرملکی طاقتوں کے ساتھ روابط رہے۔ مجیب الرحمن نے جیل سے رہائی کے بعد لندن میں اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا ”بنگلہ دیش میری زندگی کا نصب العین تھا جو مجھے مل گیا۔“ وہ اسلام اور پاکستان کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا تھا۔
موجودہ ملکی حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں ہسپانوی سفارتکار خاتون کی کتاب Pakistan under siegeکا خیال آیا جہاں موصوفہ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کا چاروں اطراف سے گھیراﺅ کیا جا رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے سینکڑوں سال قبل عیسائیوں نے (Moorrish spain) (ہسپانیہ کے مسلمانوں) کا محاصر کیا تھا۔ اللہ پاکستان کو حفظ و امان میں رکھے۔ بہتر ہے کہ ملک بچانے کے لئے پاکستان اور بھارتی حکمران جنگ کی بجائے عقل و فراست سے کام لیں۔ دہشت گردی قتل و غارت کرانے کی بجائے امن و سلامتی سے رہیں۔ اپنے کروڑوں غریب عوام کی فکر کریں جو غربت و افلاس سے تنگ کر آ کر اپنے بچوں کو فروخت اور خود کشیاں کر رہے ہیں۔