سیاستدان تو کتابیں پڑھتے ہی نہیں۔ الطاف حسین نے 13 کتابیں لکھ دی ہیں۔ تیرہویں کتاب تو بالکل غیر سیاسی ہے۔ میں شرط لگاتا ہوں کہ اسمبلیوں میں تقریباً سب لوگ اصلی ڈگریوں والے ممبران صاحبان بھی وزیر شذیر وزیراعلیٰ اور وزیراعظم تمام چھوٹے بڑے سیاستدان ایسے ہیں کہ انہوں نے ایک کتاب بھی پوری نہیں پڑھی ہو گی۔ ہمارے ادیب شاعر دانشور سکالر صحافی کالم نگار ایسے ہیں جن کے لئے بھی یہی ”خراج تحسین“ پیش کیا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں وہ بہت پڑھے لکھے آدمی ہوتے ہیں۔ اکثر ایسے ہیں جو لکھے بہت اور پڑھے کم ہوتے ہیں۔ پڑھنے کے لئے وقت ہی نہیں ملتا۔ ہر اخبار میں روزانہ بارہ پندرہ کالم ہوتے ہیں۔ کئی لکھاری قلم سے نہیں ”کلم“ سے لکھتے ہیں۔ اور پھر اپنے کالموں کا مجموعہ چھاپ دیتے ہیں اور اس کی تقریب پذیرائی کراتے ہیں جس کا سارا اہتمام وہ خود کرتے ہیں۔ اس میں صدر اور مہمان خصوصی کے طور پر کسی وزیر شذیر یا افسر وغیرہ کو بلاتے ہیں۔ جس نے یہ ”کتاب“ بلکہ کوئی کتاب نہیں پڑھی ہوتی۔ الطاف حسین کی تقریب کتاب میں کوئی وزیر شذیر نہ تھا کوئی سیاستدان بھی نہ تھا۔ حسن نثار نے صدارت کی۔ مجیب الرحمن شامی‘ منو بھائی‘ سید نور‘ جمشید امام‘ طاہرہ آصف‘ ذوالفقار راحت‘ بسمہ سکھیراآصف‘ میاں عتیق اور جہانگیر بدر نے گفتگو کی۔ وہاں بدر سیاستدان کی حیثیت سے نہ آیا تھا۔ ڈاکٹر جہانگیر بدر۔ ان پڑھ لوگ کہتے رہتے ہیں کہ دیکھیں جی کتاب کلچر ختم ہی ہو گیا ہے۔ حالانکہ اسے ختم کرنے والے وہ خود ہیں۔ کتاب کلچر ان کے نزدیک وہی حیثیت رکھتا ہے جیسے تھانہ کلچر ہے جسے تبدیل کرنے کے وعدے اور دعوے ہر سیاستدان حکمران افسرن اور پولیس افسران کرتے رہتے ہیں۔ تھانہ کلچر تبدیل کرنے کے لئے پولیس افسران کلچر افسران کلچر اور حکمران کلچر بدلنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کتاب اور خواب سے کوئی تعارف نہیں ہے۔ پھر انقلاب کی بات بھی ان کو زیب نہیں دیتی۔ وہ صرف باتیں کرتے ہیں۔ باتیں ہی باتیں۔ انہوں نے اسمبلی کلچر اور میڈیا کلچر یکجا کر دیا ہے اور اس میں یکتا ہو گئے ہیں۔
سیاستدانوں میں سے کچھ لوگوں نے جیل میں کتاب لکھی ہے۔ ورنہ وہاں بھی سیاستدان وہی کچھ کرتے ہیں جو یہاں کرتے ہیں۔ بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے کتابیں لکھی ہیں۔ بھٹو نے جیل میں اور بے نظیر نے جلاوطنی میں دختر مشرق۔ جاوید ہاشمی کی کتاب ”ہاں میں باغی ہوں“ یہ جیل کی بات ہے اور اب وہ سیاسی پارٹی کی جیل میں ہیں۔ ن لیگ کے بعد تحریک انصاف میں اب وہ نواز شریف کو یاد کرتے ہیں اور عمران خان کو یاد کراتے ہیں۔ اب بھی وہ کتاب لکھ سکتے ہیں۔ ”نہیں میں باغی نہیں“ منظور وٹو نے ”جرم سیاست“ لکھی۔ یہ جرم تو وہ اب بھی کر رہے ہیں۔ جرم کو ظلم نہیں بننے دینا چاہئے۔ شیخ رشید نے ”فرزند پاکستان“ لکھی ہے۔
صدر جنرل ایوب پر امریکہ کی حقیقت کھل گئی تو تلخ حقیقت کے طور پر کتاب لکھی ”فرینڈز ناٹ ماسٹر“ جس کا اردو ترجمہ ہوا۔ ”اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی“ یہ مصرعہ کشکول توڑنے کے اعلان کے ساتھ انتخابی مہم میں نواز شریف نے بہت پڑھا مگر انہوں نے یہ کتاب نہیں پڑھی ہو گی امریکہ اب ماسٹر نہیں رہا۔ ہیڈ ماسٹر بن گیا ہے۔ نواز شریف پر امریکہ کی حقیقت کھل چکی ہے۔ تلخ حقیقت ابھی نہیں کھلی۔ انہوں نے کشکول بڑی احتیاط سے اپنے سمدھی اسحاق ڈار کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ نواز شریف کی مسلم لیگ کا انتخابی نشان شیر ہے۔ لوگوں نے شیر چڑیا گھر میں دیکھا ہے۔ شیر کے گھر کو چڑیا گھر کیوں کہتے ہیں۔
صدر جنرل مشرف نے بھی ایک کتاب لکھی ہے جس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہوا ہے۔ ”سب سے پہلے پاکستان“ برادرم مبشر لقمان کو جو انٹرویو انہوں نے دیا ہے تو انہیں اب ایک اور کتاب لکھنا چاہئے۔ عمران خان نے بھی کتابیں لکھی ہیں۔
یہ سب باتیں میں نے روا روی میں لکھ دی ہیں۔ الطاف بھائی کی کتاب ”فلسفہ محبت“ ایک غیر سیاسی کتاب ہے۔ اس کی تقریب بھی تقریباً غیر سیاسی تھی۔ برادرم سیف یار خان نے بہت شاندار اہتمام کیا تھا۔ افتخار بخاری نے برمحل شاعرانہ کمپیئرنگ کی۔ حسن نثار نے اچھی بات کی ”اس کتاب کو پڑھ کر لگتا ہے کہ سیاستدان اور لیڈر کو ٹیچر ہونا چاہئے۔ ہم آزاد ہو کر بھی غلام ہیں۔ اور غلام محبت نہیں کر سکتے۔“ میں نے سوچا کہ غلام تو صرف اطاعت کر سکتے ہیں۔ غلام حکام بھی ہوں تو وہ مطیع اور مفتوح ہوتے ہیں۔ محبت کرنے والے بہادر اور وفا حیا والے ہوتے ہیں۔ ہم بے عشق لوگوں سیاستدان حکمرانوں اور افسروں کے درمیان پھنس گئے ہیں۔ یہ لوگ محبت کرنا شروع کر دیں تو ہماری دنیا جنت بن جائے۔ ہمارے ملک میں مذہبی اور معاشی انتہا پسندی نے ذلت اور اذیت کی دلدل پھیلا دی ہے۔ اور ہم اس میں دھنس گئے ہیں۔
منو بھائی نے کہا ”محبت کرو ورنہ نفرت نہ کرو“ اب تو نفرت نہ کرنا بھی محبت کرنے کے برابر ہو گیا ہے۔ منو بھائی ایم کیو ایم کے ”سیاسی بھائی چارے“ سے پہلے کے منو بھائی ہیں۔ ایک عورت نے الطاف بھائی کے لئے پسندیدگی کے باوجود ایم کیو ایم جائن نہ کی۔ میں ہر کسی کو بھائی نہیں کہہ سکتی۔ اسے معلوم نہیں کہ کئی عورتیں ہیں کہ انہیں بہن کہہ دو تو وہ ناراض ہو جاتی ہیں۔ کسی آدمی کو کوئی عورت بھائی کہہ دے تو اسے سانپ کاٹ لیتا ہے۔ حاضرین کو خطاب سے پہلے کہنا پڑتا ہے میرے بھائیو اور بہنو۔ ایک نوجوان نے یہ طریقہ نکالا ”میرے بھائیو اور ان کی بہنو“ منو بھائی کو بھابی بھی منو بھائی کہہ دیں تو وہ برا نہیں مناتے۔ ایم کیو ایم کے بھائیوں کا تو یہ کلچر بن گیا ہے۔ وہ تو عورتوں کو بھی بھائی کہنے سے باز نہیں آتے۔ معروف شاعرہ فاطمہ حسن حج کر کے آئیں تو منیر نیازی نے باقاعدہ اس کے منہ پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا کہ تمہاری داڑھی کہاں ہے۔
الطاف بھائی نے یہ کتاب صرف ایم کیو ایم کے بھائیوں کے لئے نہیں لکھی ہم سب کے لئے لکھی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ سیاستدانوں کے لئے لکھی ہے۔ ہر سیاستدان پر لازم ہے کہ وہ یہ کتاب پڑھے۔ محبت کی بھی ایک سیاست ہوتی ہے۔ محبت کرنا سیکھ لیں مگر وہ تو کوئی سبق ہی نہیں سیکھتے۔ صرف سبق سکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ انتقام لینے کے معنوں میں آتا ہے۔ وہ ناکام ہیں اور بدنام ہیں اور اس میں خوش ہیں وہ ناخوش لوگوں کے لیڈر کیسے بن سکتے ہیں۔ وہ لیڈر بننا بھی نہیں چاہتے۔ وہ صرف حکمران بننا چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد محبت نہیں ہے، نفرت ہے۔ الطاف بھائی سے گزارش ہے کہ وہ فلسفہ¿ نفرت پر بھی کتاب لکھیں۔ کوئی لیکچر ہی دیں۔ فلسفہ محبت بھی ایک لیکچر ہے۔ دکھ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو نفرت کرنا بھی نہیں آتا۔ نفرت کے اندر محبت ہوتی ہے جو انہیں نظر نہیں آتی۔ مفتوح فطرت والوں کو کیا معلوم کہ محبت فاتح عالم ہے۔
”فلسفہ محبت“ اور سیاستدان
Dec 21, 2013