پشاور (بی بی سی) عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جب بھی بڑے بڑے سانحات رونما ہوتے ہیں تو مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ حساس ہونے کی وجہ سے جلدی حوصلہ ہار جاتی ہیں۔ بالخصوص جب کم عمر اور معصوم بچوں کے قتل عام یا ہلاکتوں کا معاملہ ہو تو ایسے میں تو عورتیں ٹوٹ کر رہ جاتی ہیں لیکن پشاور حملے کے بعد سکول کی کچھ ایسی خواتین اساتذہ کی کہانیاں بھی سامنے آئی ہیں جنہوں نے حملے کے دوران جرأت اور بہادری کی مثالیں قائم کیں۔ ان میں جونیئر سیکشن کی پرنسپل سائرہ دائود بھی شامل ہیں۔ حملے کے وقت انکا اپنا بیٹا بھی سینئر سیکشن میں اس جگہ پر موجود تھا جہاں خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی جبکہ بیٹی جونیئر سیکشن میں تھی اور یہ دونوں خوش قسمتی سے محفوظ رہے۔ سائرہ نے نہایت مستعدی اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تقریباً 150 کے قریب بچوں کو محفوظ مقام تک منتقل کرنے میں مدد کی۔ سائرہ نے کہا کہ میں نے اس سانحے کو اپنا ہتھیار بنا لیا ہے اور اب میں اسکو استعمال کر کے اسکی مدد سے ساتھی اساتذہ اور بچوں کو دوبارہ زندگی کی طرف لانے کی کوشش کروں گی۔ وہ ایسی عجیب فائرنگ تھی جس کی آواز میں نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ میں نے کھڑی سے دیکھا تو میدان میں دہشت گرد کالے رنگ کے کپڑے، بڑی بڑی خاکی رنگ کی جیکٹیں پہنے دندناتے پھر رہے تھے۔ انکے ہاتھوں میں عجیب وغریب قسم کا بڑا اسلحہ تھا جس سے آگ نکل رہی تھی، وہ وحشی درندے بے خوف ہو کر بچوں پر گولیاں برسا رہے تھے۔ کئی اساتذہ دہشت گردوں کے سامنے آ کر بچوں کیلئے ڈھال بن گئے جس سے کئی بچے بچ بھی گئے لیکن استانیوں پر حملہ آوروں نے فاسفورس بم پھینکے گئے جس سے وہ جل گئیں۔ تقریباً پانچ سے دس منٹ کے دوران کوئیک رسپانس فورس اور ایس ایس جی کے دستے پہنچ گئے جنہوں نے حملہ آوروں کو ایک جگہ تک محدود کر دیا ورنہ اس سے بھی کہیں زیادہ نقصان ہوتا۔ شہید بچوں نے ایسی قربانی پیش کی ہے جس نے پورے ملک اور تمام قوم کو اکٹھا کر دیا ہے قوم میں جو تھوڑی بہت دراڑ تھی وہ اب ختم ہو گئی ہے اور اب لگتا ہے کہ یہ قربانی ملک کی تاریخ بدلے گی۔