”کرسمس “سانتا کلاز بچوں کا پسندیدہ کردار

کرسمس کی آمد آمد ہے،بڑے دنوں کی چھٹیوں جو کہ دسمبر کے آخر میں ہوتی ہیں اس دوران ہر سال 25دسمبر کو کرسمس ڈے ہمارے مسیحی بھائی بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں،دیار غیر میں اس خوشی کے موقع پردسمبر کے آغاز میں اسٹالز سج جاتے ہیں اورہر اشیا انتہائی سستے داموں فروخت کی جاتی ہیں۔
جہاں مسلمان بھائی اپنے مذہبی اورقومی تہوار جوش و خروش سے مناتے ہیں وہاں ہمارے مسیحی بھائی بھی اپنے اس تہوار کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اوردھوم دھام سے مناتے ہیں۔ اس موقع پر مسیحی بھائی ایک دوسرے کو کیک دیتے ہیں۔ مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں اور بچے بھی رنگ برنگے ملبوسات زیب تن کرکے ایک دوسرے کو خوشیاں بانٹتے ہیں۔ جونہی دسمبر کا آغاز ہوتا ہے۔ ننھے منے مسیحی بچے اور بڑے اپنی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہاںدُکاندروں کی خو ب چاندی ہوتی ہے۔ مذہبی تہوار کسی کا بھی ہو ہر کوئی اپنے تہواروں کو بڑے جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ ماہ دسمبر میں سردی ہوتی ہے اور موسم بھی گرم کپڑے پہننے کا ہوتا ہے،نئی جرسیاں،نئے سویٹر،نئے کوٹ،جبکہ بچیوں کو چوڑیاں، مہندی،جوتے،یہ کہ سب کچھ خریدنے کی خواہش ہوتی ہے،لیکن مہنگائی کے اس دور میں یہ سب کچھ خریدنا سفید پوش آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔پھر بھی اس خوشی کے موقع پر لوگ کسی نہ کسی طرح اپنے بچوں اور بچیوں کو خوشیوں سے محروم نہیں کرتے اور جیسے تیسے خرید کر دیتے ہیں۔ والدین اپنے لئے کچھ نہ خریدیں لیکن اپنے بچوں کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے ان کی ہر خواہش کا احترام کرتے ہیں۔ انہیں ناراض نہیں دیکھنا چاہتے اور نہ ہی یہ چاہتے ہیں کہ ننھے منے پھول احساس کمتری میں مبتلا ہوں۔
اردگرد نگاہ دوڑائیں، سکولوں، سرکاری و غیرسرکاری اداروں ،اڑوس پڑوس میں ہمارے مسیحی بھائی بھی آپ کے ساتھ کام کرتے، پڑھتے یا رہتے ہوں گے۔مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا یہ فرض ہے کہ آپس میں بھائی چارے کی فضا قائم کرتے ہوئے ایک دوسرے کے کام آئیںآپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں۔ اسلام ہمیں بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔ اچھے اخلاق کا درس دیتا ہے۔ مل جل کر رہنے کا درس دیتا ہے۔ ہم پاکستانی قوم ہیں۔ پاکستانی ہونے کے ناطے ہم سب ایک اورپاکستانی ہیں۔مسیحی بھائیوں میں بھی ہماری طرح کئی گھرانے ایسے ہیں جوغربت کی زندگی بسر کررہے ہیں، کرسمس کے موقع پر اپنی خوشیاں نہیں منا سکتے۔ اس خوشی کے موقع پر ہمیں ان کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ ان کی مالی امداد کرنی چاہئے اور یہی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ خوشیوں سے محروم نہ رہیں۔ اسلام ہمیں یہی درس دیتا ہے۔ خاص طور پر بچوں کے جذبات کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے کیونکہ مذہبی تہواروں میں اپنے عزیزوں اور ساتھیوں کے بغیر خوشیاں ادھوری معلوم ہوتی ہیں۔ خوشی کے اس موقع پر ہمیں ایسے بچوں کو تلاش کرنا چاہئے جو غربت کی وجہ سے اپنی خوشیاں نہیں منا سکتے۔ آپ کی تھوڑی سی توجہ ان مستحق بچوں کو بے شمار خوشیاں فراہم کر سکتی ہیں۔ اگر آپ چپکے سے ان کی مدد کر دیں گے تو ذہنی و قلبی سکون میسر آئے گا۔ ان بچوں کو اپنا سمجھیں ان سے پیار اور محبت اور خلوص سے پیش آئیں۔
دنیا میں بہت سے مذاہب ہیں اور ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہبی دن نہایت جذ بے اور عقیدت و احترام کے ساتھ مناتے ہیں۔ دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے عیسائی اس دن کے منانے کا اہتمام کئی روز پہلے ہی شروع کر دیتے ہیں اور پھر اس روز اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کے ساتھ ساتھ تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، جس سے بھائی چارے کی ایک فضا بھی قائم ہوتی ہے۔ ہر حکومت چاہے وہ کوئی بھی ملک ہو، اسلامی یا غیراسلامی، آئینی و قانونی طور پر ہر مذہب کو اس کی آزادی دیتا ہے کہ وہ اس ملک میں رہ کر اپنی عبادات اور مذہبی تہوار آزادانہ منا سکتے ہیں۔ یہ ان کا قانونی، مذہبی یا اخلاقی حق ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اس میں بسنے والے ہر مذہب اور ہر رنگ و نسل کے لوگ پاکستانی کہلائیں گے مگر مذہبی حوالے سے جو غیرمسلم ہیں وہ اقلیت کہلائیں گے جس طرح امریکہ، برطانیہ یا دیگر ممالک میں بسنے والے مسلمان اقلیت کے زمزے میں آتے ہیں۔ لہٰذا ہر ملک میں اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہیں اور انہیں اپنے مذہبی تہوار منانے میں مکمل آزادی ہے۔ کرسمس جسے بڑا دن بھی کہا جاتا ہے اس دن یسوع مسیح کی ولادت پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ انگریزی بولنے والے ملکوں میں بڑے دن کے لکڑی کا لٹھا (یعنی بڑے دن کے تہوار کا پورا ہفتہ منایا جاتا ہے)۔ سدابہار ہولی اور آکاش بیل سے سجاوٹ کر کے کرسمس کا ترانہ گایا جاتا ہے۔ تحفے تحائف دیئے جاتے ہیں اور مبارک بادکے کارڈز یا موبائل فون کے زریعے میسجز بھجوائے جاتے ہیں ایس ایم ایس کئے جاتے ہیں۔ کرسمس کا درخت جرمنوں کی ایجاد ہے۔ امریکی سانتا کلاز کی رسم نیویارک میں ولند یزی رسموں سے لی گئی ہے جبکہ سانتا کلاز بچوں کا پسندیدہ کردار ہے۔ پاکستان میں بھی دیگر ممالک کی طرح یہ دن نہایت جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ مختلف رسوم ادا کی جاتی ہیں۔ چرچ سجائے جاتے ہیں اور ان میں عبادت کی جاتی ہے۔ دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ بچے اور عورتیں بالخصوص رنگ برنگے کپڑے پہنے عید کی خوشیوں کو دوبالا کئے گھومتے پھرتے اور خریداری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پارکوں میں رش اور جھولے جھولنے میں بچے بچیاں خوشی سے پھولے نہیں سماتے کھانے پینے کے سٹال سجائے جاتے ہیں۔ حکومت ہر طرح کی سہولت فراہم کرتی ہے تاکہ انہیں کسی قسم کی کوئی پریشانی لاحق نہ ہو اور ہمارے اقلیتی بھائی اپنے اس مذہبی تہوار کو آزادانہ طور پر منا سکیں جو ان کا مذہبی و جمہوری حق ہے۔

ای پیپر دی نیشن