ماضی کے جھروکوںسے مستقبل کا نتیجہ دیکھیں !

Dec 21, 2016

محمد اکرام چودھری

امیر تیمور ایک عظیم مسلمان فاتح اور حکمران گزرا ہے۔ وہ شہروں کے شہر جلانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا تھا۔ وہ ہر مہینے ایک ملک پر چڑھائی کر دیتا اور اسے فتح کر کے ہی لوٹتا۔ وہ اپنے فوجیوں کو انعام کے طور پر فتح ہونے والے ملک میں لوٹ مار کی اجازت دے دیتا اور مردوں کو قتل کروا دیتا۔ اقتدار کی لوٹ مار کی اس سے بڑی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ وہ طاقت کے نشے میں اس قدر غرق ہو چکا تھا کہ اسے اپنے عوام کا بھی حال پتہ نہ چل سکا۔ وہ مرگیا لیکن تاقیامت تک اسے ایک خونخوار جنگجو کے نام سے یاد کیا جاتا رہے گا۔ اسی طرح جس طرح آج تاریخ ذوالفقار علی بھٹو کو یاد کیا کرتی ہے۔ نئے اور’’مختصر‘‘ پا کستان میں 20 اکتوبر1971 کو جنرل یحییٰ نے عنانِ اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے سپرد کی تو اس وقت بھٹو پاکستان کی تاریخ کا پہلا عوامی لیڈر تھا اورشاید آخری سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی تھا جس نے صدر مملکت کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹوعوام میں اپنی اہمیت منوا چکا تھا۔ بھٹو نے ایجنسیوں کو اپنی خدمات پر لگا دیا۔ بھٹو نے سات سال تک پاکستانی سیاست کو نئے رنگ دئیے۔ 

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی تاریخ میں صرف بھٹو کا دور خالص سیاسی تھا، بلکہ سیاسی اکھاڑہ تھا۔ بھٹو نے فوج میں بھی اپنا اثر چھوڑا۔ خاص کر ایجنسیوں میں۔ سیاست میں فوج تھی پہلے ہی مگر سیاسی مخالفت میں فوج کی خفیہ ایجنسیوں کو سب سے پہلے بھٹو نے استعمال کیا۔ ٹارچر سیل بنائے گئے۔ سیاسی مخالفوں کی ‘‘عزت افزائی‘‘ کی گئی۔ مگر بھٹو نے بھی اپنے جنرل ایوب والی غلطی کی۔ وہ بین الاقوامی لیڈر تو بنے اور عوام میں مقبول ہونے مگر عوام کیلئے روٹی کپڑا مکان کے نعرے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ بھٹو کی حکومت کی وجہ سے فوج میں واضح تبدیلی ہوئی۔ فوج میں اسلامی عنصر واضح ہوا اور سیکولر عنصر نے بھی اپنی جگہ بنا دی۔ یعنی پاکستان کی تاریخ میں 1971کے بعد ذوالفقار علی بھٹو بھرپور طاقت کے ساتھ پاکستان کا حکمران بنا اور اس نے آرمی چیف کو جس انداز سے رخصت کیا اس کا علم بھی ہم سب کو ہے۔ جب20دسمبر1971 کوصدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی نشری تقریر میں لیفٹیننٹ جنرل گل حسن کو قائمقام کمانڈر انچیف مقرر کردیا۔ انہوں نے یہ عہدہ صدر پاکستان آرمی چیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان سمیت سات جنرل کے فوری ریٹائرمنٹ کے بعد سنبھالا۔ 22 جنوری 1972کو جنرل گل حسن تین سال کیلئے مستقل آرمی چیف مقرر کردئیے گئے۔ اسکے بعد بھی بھٹو نے اپنی طاقت کا بھرپر مظاہرہ کیا اور ایک بار پھر آرمی چیف کی تقرری بھی فوری اور اچانک سامنے آئی جب 3مارچ1972 کو اپنی نشری تقریر میں صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ٹکا خان کو نئے آرمی چیف مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ اس سے قبل اس ہی روز جنرل گل حسن اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔ اسکے بعد آج کل جو پارلیمنٹ میں جو تماشے ہو رہے ہیں وہ ہر روز ہوا کرتے تھے، اور اپنے مخالفین کے ساتھ بھٹو نے جو سلوک کیا خاص طور پر جو اس وقت اسے چھوڑ کر گئے تھے مصطفی کھر اورباقی کچھ اس طرح کے لوگ شامل تھے۔ آج بھی تاریخ میں انہیں تلخ یادوں کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ بھٹو مخالفین کے ساتھ ایسا سلوک کیا کرتا تھا کہ روح کانپ جایا کرتی تھی۔ کبھی مخالفین کے جلسوں میں فائرنگ کے واقعات اور کبھی جلسوں میں پانی کے ساتھ سانپ چھوڑ دینے کے واقعات بھلائے نہیں جا سکتے۔ بہرکیف طاقت کا نشہ بھی تو بہت عجیب رنگ لاتا ہے، اورآٹھویں آرمی چیف کی تقرری کا اعلان 25روز قبل کردیا گیا تھا جب5فروری1976 کوبھٹو دور حکومت میں و وزار ت دفاع سے پریس ریلیز جاری کیا گیا جس کیمطابق یکم مارچ1976سے لیفٹیننٹ جنرل محمد ضیاالحق کو پاکستان کی بری افواج کا نیا سربراہ مقرر کردیا گیا ہے۔ انہوں نے جنرل ٹکا خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا یہ عہدہ سنبھالا۔سینیارٹی میں وہ آٹھویں نمبر پر تھے۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ 1976ء میں جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ملتان کے دورے پر گئے تو کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الحق نے ان سے ملاقات کی اور قرآن پاک پر حلف اٹھا کر اپنی غیر متزلزل وفاداری کا یقین دلایا۔ذوالفقار علی بھٹو نے اس بات سے متاثر ہو کر جنرل ضیاء کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیاتھا۔ اسکے بعد کا بھی سب کو علم ہے کہ کیا ہوا 1977ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کیخلاف حزب اختلاف کی احتجاجی تحریک زوروں پر تھی تواعلیٰ عسکری قیادت‘ جن میں چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی اور مسلح افواج کے تینوں سربراہ شامل تھے‘ سب نے حکومت کو اپنی مکمل حمایت اور وفاداری کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن چند دن بعد ہی ضیاء الحق نے حلف توڑتے ہوئے حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
اس سے پہلے 1977ء کے انتخابات لوگوں نے دیکھے اور انتخابات سے قبل صرف آدھے گھنٹے میں مفتی محمود کی قیادت میں پی این اے (پاکستان نیشنل الائنس) بن گئی، اور جے یو آئی ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئی جو ماضی میں انکے مخالفین تھے، اور بھٹو نے بھر پور طاقت کے نشے میں اُس وقت کے لاڑکانہ کے ایم این اے جان عباسی کو اغوا کروایا اور بلامقابلہ منتخب ہوگیا، اور اس کے بعد ایک تحریک چلی اور طاقت ور وزیر اعظم پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔
آج حکمران بھی اسی طاقت کے نشے میں چور دکھائی دے رہے ہیں جس کا عکس ستر کی دہائی میں ہمارے سامنے تھا۔ میرا یہ کہنا ہے کہ جب آپ تمام اداروں پر مکمل گرپ حاصل کرلیتے ہیں توتمام اختیارات آپ کے پاس آجاتے ہیں۔ اور اگر آپ اس طاقت کا صحیح طور پر استعمال نہ کرپائیں تو وہ بھیانک نتائج کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن اگر آپ اس طاقت کو عوام کی فلاح و بہبود کیلئے، عوام کی قوت خرید کو بڑھانے کیلئے، عوام کی صحت اور تعلیم پر خرچ کرنے کیلئیاور مخالفین سے دشمنی ختم کرکے انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے صرف کرنا شروع کردیں تو ملک ترقی کرنا شروع کردیگا اور میاں نواز شریف پر ضروری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آج وہ طاقت حاصل کرنے کے بعد ملک میں اتحاد ، یکجہتی ، اور قومی وقار کو بلند کرپائینگے یا طاقت کے نشے میں ہر چیز کو بلڈوز کردینگے۔ گوکہ آج کے دور کی 70ء کی دہائی سے مماثلت نہیں کی جا سکتی کیوں کہ آج آزادی اظہار رائے اور سیاسی جماعتیں ماضی سے بہت مختلف ہیں۔ بظاہر حکمرانوں کو جو چیز یں اور ہر طرف سے اچھا کی رپورٹ دکھائی دے رہی ہے۔ حالات ویسے نہیں ہیں۔ آج تیموری سوچ رکھنے والے یہ سیاستدان و حکمران شاید یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ موجودہ حالات میں ان کے لب و لہجے سے ملک و ملت کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان پر سالہا سال حکومت کرنیوالے ان امیر ترین خاندانوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ حالات کس نہج پر جا رہے ہیں۔ حکومت اپنے وزیروں ، مشیروں اور اپنے ٹائوٹوں کے ذریعے نا تو اس ملک کے عوام پر قبضہ کر سکتی ہے اور نہ انکے دلوں پر راج کر سکتی ہے۔ تاریخ میں اگر کسی نے عوام کے دلوں پر راج کیا ہے تو اس نے کارکردگی کی بنیاد پر کیا ہے۔ اور یہی پاکستان کے عوام چاہتے ہیں۔

مزیدخبریں