سیاسی درفنطنیاں

عجیب گھپلے، عجب ابہام، خیالات و تصورات میں دوئی، بھانت بھانت کی بولیاں، طرح طرح کی درفنطنیاں اور قسم قسم کے راگ، یہ ہے آج کل ہمارے سیاسی ماحول کا دلچسپ اجمال۔ کس سے کون پوچھے کہ کیا زندگی اور کیا روشنی ہے؟ اور یہ بھی کہ خاکم بدہن جو طوفان ہم کچھوے کی طرح سمندر کے کنارے ریت میں منہ دے کر فراموش کئے بیٹھے ہیں وہ کہیں ہم تک پہنچ کر ہی نہ رہے۔ آغا صدیق حسن ضیاء نے بہت پہلے یہ بات اپنے شعری لحن میں کہہ دی تھی؎

کون سے رنگ میں امید کا منظر کھینچوں
ڈوبنے والے نے ہر موج کو ساحل سمجھا
متذکرہ بالا صورتحالات کا اجمال ذرا کھلی آنکھوں سے دیکھئے، سپیکر قومی اسمبلی کہتے ہیں مجھے سب اچھا نظر نہیں آ رہا، اس پر شیخ رشید لقمہ دیتے ہیں کہ آپ نے سچ بولنا شروع کر دیا ہے۔ ان کے برعکس سب سے زیادہ امید افزائی چیئرمین سینیٹ کے لہجے میں ہے، جنھوں نے برملا کہہ دیا کہ پارلیمنٹ کے جمہوری قافلے کو ہم موجودہ نہج تک لے آئے ہیں۔ یعنی ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے‘ اور ان کے اس فرمودہ میں کتنا عزم جھلکتا ہے۔ کہتے ہیں یہ پارلیمان اپنا دورانیہ پورا کرے گی۔ حدیث مبارکہ کی رو سے مسلمان یعنی مومن کا ایمان خوف اور امید کے مابین ہوتا ہے۔ میں خود جب اپنا داخلی منظر نامہ ٹٹولتا ہوں تو مجھے اکثر اپنا ایقان خوف اور امید کے درمیان ہی ملتا ہے، کتنی سچی حدیث پاک ہے۔ قربان جائیں اس اللہ کے آخری رسولؐ پر جس نے ہمیں گومگوکی کیفیت میں بھی ایمان کی سلامتی کا راستہ دکھایا۔ ہمارے ملک کی سیاسی فضا تو جانے کن عناصر ترکیبی سے ترتیب دی گئی ہے۔ جہاں غیر متعلقہ ایشوز بھی زیب داستاں بنا دیئے جاتے ہیں۔ قربان جائیے دیرینہ فرزند راولپنڈی شیخ رشید پر جو ببانگ دہل فرماتے ہیں کہ جمائما کو بھی پاکستان آکر یہاں کی سیاست میں حصہ لینا چاہیے، جو بات بھی کی خدا کی قسم لاجواب کی۔ ان کی اس درفنطنی پر عمران خان نے روہانسا ہو کر کہا کہ شیخ رشید تم پرائی باتوں کو نہ چھیڑو اور پھریار لوگوں کو یہ موقع اللہ دے کہ جنھوں نے جمائما کے ساتھ عمران خان کے عقد ثانی کی باتیں شروع کر دیں۔ بعض ستم ظریفوں نے تو سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی بحث بھی شروع کر دی، جو ہر طرح شائستگی اور متانت سے گری ہوئی باتیں ہیں۔ اس ضمن میں میری رائے ہے کہ کسی بھی سیاسی رہنما کی ذاتی زندگی کو ہدف تنقید نہیں بنانا چاہیے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی اخلاق سے گری ہوئی بات کرنی چاہیے۔ لیکن یہاں کیا کہیں‘ شیخ رشیدکی قبیل کے لوگوںکی گز بھر لمبی زبان کو لگام کیسے دیں؟جمائما خان کے متعلق ان کا بیان پڑھ کر مجھے خود شرمساری ہوئی کہ آخر ایسی بات کیوں کی جائے، جس میں ضم کا پہلو ہو؟ ۔
اب ذرا اس مفروضے پر غور فرمائیں۔ بالفرض جمائما پاکستان آ کر یہاں کی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیں تو انھیں عمران خان کے وزیراعظم بننے پر کیا حیثیت دی جائے گی؟ پھر یہاں مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی قبیل کے دیگر دینی وسیاسی و علماء بھی موجود ہیں جو ہر لحظہ اور ہر آن پاکستان کی سیاست میں یہودی مداخلت کی باتیں کرتے ہیں۔ کیا جمائما کے یہاں قدم رنجہ ہونے پر سیاسی جوار بھاٹا سونامی کی شکل نہیں اختیار کر جائے گا؟ آ بیل مجھے مار، اس لئے عمران خان کو یہ کہتے ہوئے بنی کہ شیخ رشید پرانی باتیں نہ کریدیں۔ انھیں شاید یہ بات یاد نہیں کہ شیخ صاحب اپنے سیاسی ویژن کو تاحال بھابڑا بازار کی فضا سے ہم آہنگ کئے بیٹھے ہیں، وہ اسے فراموش کیسے کر دیں؟ وہاں تو انہیں ووٹ اور آشیر باد تک ملتی ہے۔ دوسری طرف عمران خان کا ذہنی سیاسی کینوس بھابڑا بازار سے خاصا مختلف ہے۔ وہ اندر سے ممی ڈیڈی نزاکت رکھتے ہیں، وہ لکھنؤ کے بانکوں کی طرح کسی مشکل میں عملاً کودنے کے قائل نہیں اور اگر کود بھی جائیں تو انھیں کوئی نہ کوئی طاقت اپنی پشت پر درکار ہوتی ہے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی معطلی اور وکلاء کی تحریک کے موقع پر عمران خان کا طرز عمل ایک تاریخی حقیقت ہے۔ سیاسی، سماجی تحریک چلانے کا فی الوقت دم خم اگر نواز شریف میں نہیں تو عمران خان میں بھی نہیں۔ پھر ایک اور کھلی حقیقت بھی دیکھیے‘ دراصل یہ حقیقت نہیں کھلا تضاد ہے کہ بقول پی ٹی آئی نوازشریف اور ان کی پارٹی نے سپریم کورٹ کی جانب سے نااہلی کے حکم کو نہ صرف تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ اپنا سیاسی کردار جاری رکھنے پر اصرار بھی کیا۔ یہ تو ہوا نوازشریف کا معاملہ اوراب جہانگیر ترین کی عدالت عظمیٰ کے حکم کی رو سے نااہلی کے باوجود عمران خان فرماتے ہیں کہ ترین کا سیاسی کردار جاری وساری رہے گا۔ بعض ستم ظریفوں کی جانب سے عمران کے اس بیان پر کچھ یوں ردعمل ظاہر کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے یہ تو گویا بنک دیوالیہ ہو کر بند ہونے کے باوجود اے ٹی ایم مشین بدستور ان ورکنگ ہونے کے مترادف ہے۔ ہاں ان لوگوں کا یہ کہنا خاصی حد تک درست ہے کہ جہانگیر ترین عمران خان کی اے ٹی ایم مشین ہے جس کے ناکارہ ہونے کا بقول عمران خان سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر یہ مشین کبھی ناکارہ ہوئی تو عمران خان کی سیاست اسی طرح بیٹھ جائے گی جیسے اسحاق ڈار کے بغیر نوازشریف ادھورے نظر آرہے ہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بڑی سیاسی شخصیات اپنے حصار میں اے ٹی ایم ایسی شخصیتوں کو کیوں رکھتی ہیں؟ اور یہ ان کو اٹوٹ انگ کیوں سمجھتے اور جانتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ اے ٹی ایم مشین کے بغیر بنک اور مالیاتی ادارے نہیں چل سکتے۔ پاکستان کی مجموعی سیاست میں ایک نوازشریف کیا‘ عمران خان‘ طاہرالقادری‘ فضل الرحمن اور دیگر ساری مقتدر لیڈر شپ دراصل مالیاتی ادارے ہیں اور یہ منظر نامہ موجودہ سیاسی صورتحالات کے تناظر میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔تضاد بیانی پاکستانی سیاست میں ایسی رچ بس گئی ہے کہ سادہ لوح پاکستانی کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے‘ چرب زبانی کی جبلت نے بظاہر دلائل کی شکل اختیار کی ہوئی ہے‘ جو دراصل قول وفعل کا تضاد ہے عمومی سیاسی لیڈر شپ کے سارے طور اطوار منافقت پر استوار ہیں‘ جمہوریت کی بات ہو تو اندرون خانہ دلوں میں آمریت پلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور اسلام کے اساسی اصولوں کی بات کریں تو اسلام وہ بتایا جاتا ہے جو ہر کسی کی اپنی ذہنی وفکری اختراع ہو۔ مساوات کی کوئی بات ہی نہیں کرتا اور رہا عدل تو انصاف اللہ پر چھوڑ دیا گیا ہے۔؟ ایسے میں ایمان وایقان کی حفاظت صرف اللہ کی ذات ہی کرسکتی ہے‘ جو وہ ہر لحظہ کررہی ہے۔!

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

ای پیپر دی نیشن