استعفیٰ!!!

السلام علیکم بریگیڈئر صاحب کیسے ہیں آپ سر یہ سب استعفے دے رہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ سب کے جانے کے بعد آپ بھی چلے جائیں۔ یہ سننا تھا کہ خالد سجاد کھوکھر کہنے لگے دیکھیں ہم جو کر سکتے تھے اس کھیل کی بہتری کے لیے،کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی جیب سے پیسے لگائے، کھلاڑیوں کو ملازمتیں لیکر دیں، غیر ملکی کوچ اور سپورٹ سٹاف کو بھاری معاوضے پر لیکر آئے، قومی ٹیم کو ہر اہم ایونٹ میں شرکت کے لیے بھیجا،ہال آف فیم کی تقریب کا انعقاد کیا، ملک کے خوش کن تاثر کو بہتر کرنے کے لیے غیر ملکی گول کیپرز منگوائے۔ ہر سال ایونٹس کروائے، اپنے اولمپیئنز اور انٹرنیشنل پلیئرز کو مختلف ٹیموں کی کوچنگ کی ذمہ داریاں دیں،کسی کو سلیکشن کمیٹی میں لگایا تو کسی کو ایگزیکٹیو بورڈ میں، ملک میں کھیل کی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے سابق کھلاڑیوں کو ساتھ ملایا، سپر ہاکی لیگ کے لیے کوششیں کیں، بہترین خیالات کے حامل افراد کو ذمہ داریاں دیں، نوید عالم کو ڈائریکٹر ڈومیسٹک، خواجہ جنید کو ہیڈ کوچ اور حسن سردار جیسے بڑے ناموں کو اہم عہدے دیے، اصلاح الدین کو چیف سلیکٹر لگایا، میرے دور چودہ سال بعد ملک میں انٹرنیشنل ہاکی واپس آئی، ایک بڑی کمپنی کے ساتھ 2020ء تک سپانسر شپ کا معاہدہ کیا، حکومتی تعاون کے بغیر بھی قومی کھیل کی سرگرمیوں کو بحال رکھا، جونیئر کھلاڑیوں کو آسٹریلیا اور کی کینیڈا بھیجا، حافظ صاحب باتیں کرنا آسان اور کام کرنا مشکل ہے دور کے ڈھول سہانے ہوتے میں آپ میری جگہ آئیں تو اندازہ ہو گا کہ کتنے مسائل اور مشکلات ہیں۔میں اور کیا کر سکتا تھا۔کھوکھر صاحب ایک سیکنڈ رکیے گا دوسرے فون پر آپ کے سیکرٹری جنرل اولمپئین شہباز احمد سینئر کا فون آ رہا ہے۔ جی شہباز بھائی السلام علیکم،عمران یار میں بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہا ہوں۔ اپنی حیثیت میں رہتے ہوئے ہاکی کو بہتر کرنے اسے مقبول بنانے اور نوجوانوں میں کھیل کا شوق بیدار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا ہوں تمام تر کوششوں کے باوجود مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا بہتر وقت ہے کہ ہاکی فیڈریشن سے الگ ہو جاوں حکومت اپنے انداز میں اس ادارے کو چلائے جسے لگانا چاہتی ہے لگائے، فنڈز اور حکومتی سرپرستی کے بغیر کھیل دوبارہ ترقی حاصل نہیں کر سکتا میں نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ ہمیں براہ راست فنڈز نہیں دینا چاہتے نہ دیں دوروں کے اخراجات اور کھلاڑیوں کے پیسے انہیں براہ راست ادا کریں تاکہ سرگرمیاں متاثر نہ ہوں اس کھیل کا بیڑہ غرق الزامات لگانے والوں اور ذاتی مفادات کو ترجیح دینے والوں نے کیا ہے۔ اچھا لاہور آتا ہوں تو ملتے ہیں۔اس سے پہلے کہ ہم دوبارہ خالد سجاد کھوکھر سے بات کرتے ریسٹورنٹ کے سٹاف میں شامل نوجوان کی آواز ہمیں خیالات کی دنیا سے باہر لے آئی ۔سر کیا لیں گے قہوہ یا کافی، اوہ معذرت بہت دیر ہو گئی یہاں بیٹھے ایک کیپی چینو لاو یار!!!!!
ہم واپس حقیقی دنیا میں تھے اور سوچ رہے تھے کہ قومی کھیل کے اچھے دن کب واپس آئیں گے۔ گذشتہ دس برس میں تو اتنی تیزی سے روپے کی قدر بھی نہیں گری جتنی تیزی سے ملک میں ہاکی نیچے آئی ہے۔ ایک ہاکی نے سارے ملک کے ہاکی پلیئرز کو عزت،شہرت، نام، مقام، دولت اور پہچان دی اور یہ سب مل کر بھی ایک ہاکی کو اسکا حقیقی مقام دینے میں ناکام رہے ہیں۔ بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک ہاکی سے لینے والوں میں کوئی کمی نہیں آئی تاہم ہاکی کو کچھ واپس کرنیوالا کوئی نظر نہیں آتا۔ ہاکی ٹیم کی عالمی کپ میں ناکامی کے بعد ایک ایک کر کے ٹیم انتظامیہ سے جڑے افراد گھروں کو واپس جا رہے ہیں سب نے ناکامی کو تسلیم کیا ہے اتنے بڑے پیمانے پر استعفوں کے بعد کیا فیڈریشن کی اعلی شخصیات کے پاس عہدوں پر قائم رہنے کا کوئی جواز باقی رہتا ہے؟؟؟؟؟

حافظ محمد عمران/نمائندہ سپورٹس

ای پیپر دی نیشن