پاﺅں صوفے پر مت رکھو

باوجود اس کے کہ اب وہ دنیا میں نہیں رہے، مجھے ان کا نام لکھنے کی اجازت نہیں۔ چنانچہ ان کیلئے ”صاحب“ کا لفظ استعمال کروں گا۔ فروری 2001ءمیں میرا ایک آرٹیکل ”قائد اعظم کا تصور پاکستان“ روزنامہ نوائے وقت میں تین قسطوں میں چھپا تھا۔ دراصل یہ مضمون قائد اعظم کے 125 ویں سالانہ جشن ولادت کے حوالے سے ایوان کارکنانِ تحریک پاکستان، لاہور میں پڑھا گیا تھا۔ صاحب کے ساتھ تعارف کا سبب یہی مضمون بنا۔ انہوں نے شفقت فرمائی۔ کراچی سے فون کیا اور دیر تک مندرجات کے حوالے سے گفتگو فرماتے رہے۔ پھر مارچ 2002ءمیں سرسری سی ملاقات بھی ہو گئی۔ صاحب وزیر خارجہ عبدالستار سے ملنے آئے تھے اور مجھے بھی شرف ملاقات بخشا۔ میں اپنے کمرے میں دو کولیگز کےساتھ میٹنگ میں تھا اور دروازے کے پاس پڑے صوفے پر گاﺅں سے آیا ملازم بیٹھا تھا۔ یکایک دروازہ کھلا تو صاحب کی پہلی نظر اسی لڑکے پر پڑی۔ رک گئے اور ڈانٹ کر کہا ، ”پاﺅں صوفے پر مت رکھو۔“ وہ بیچارا ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا۔ کندھے سے پکڑ کر شفقت سے صوفہ پر بٹھایا اور بولے، ”بیٹے میں نے تو صرف پاﺅں صوفے پر نہ رکھنے کیلئے کہا تھا۔ بیٹھو بیٹھو شاباش۔“ میں نے یہ منظر حیرت سے دیکھا، اور احتراماً آگے بڑھ کر مصافحہ کیا۔ اس گہماگہمی میں میٹنگ برخاست ہو گئی۔ صاحب نے بیٹھتے ہی معذرت کی کہ بلا اجازت چلا آیا اور تمہارے گرائیں کو ڈانٹ بھی دیا۔ مزید بولے، رکوں گا نہیں، تمہیں جلدی ہے۔ لڑکے کو گھر لیکر جانا ہو گا اور میری بھی فلائیٹ کا وقت ہو رہا ہے اور ہم دونوں سے مصافحہ کر کے چل دئیے۔ لڑکے سے تو خصوصی شفقت فرمائی۔
کوئی چارماہ بعد کراچی کا پروگرام بنا، تو صاحب کو فون کیا۔ بولے، ملیے گا ضرور۔ انہوں نے تو گویا میرے منہ کی چھین لی۔ میں تو خود ان سے درخواست کرنے والا تھا۔ نہایت تپاک سے ملے۔ چائے کا گھونٹ لیتے عرض کی کہ اجازت ہو تو ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ اس دن آپ نے لڑکے کو صوفے پر پاﺅں رکھنے سے کیوں ڈانٹا تھا؟ بولے، وہ اسلئے کہ وہ کسی اور سے ڈانٹ نہ کھائے۔ عرض کی، کیا مطلب ؟ کچھ سمجھ نہیں پایا۔ بولے یہ ایک ایسی کہانی ہے، جو میں نے آج تک کسی سے نہیں کہی۔ عرض کی کہ اگر مناسب ہو تو مجھ سے کہہ دیں ، ہر شرط منظور! خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ بولے، اب تو چل چلاﺅ ہے۔ 76 کا ہو چکا، اور کتنا جی لوں گا؟ اس کہانی کے سب کردار چل بسے۔ میرا بھی چل چلاﺅ ہے۔ رہی شرط ، تو محض یہ کہ میری زندگی میں نہ لکھنا ا ور میری شناخت مت کھولنا۔
اس عہد و پیمان کو 19 برس بیت گئے۔ صاحب بھی چند برس پہلے چل بسے۔ اس دوران اس کہانی کو میں نے بڑی محنت سے سنبھالے رکھا۔ جو آج قارئین کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔ صاحب مشرقی پنجاب کے ضلع لدھیانہ کے رہنے والے تھے۔ والد آٹھ جماعت پاس ا ور گاﺅں کے سکول میں ٹیچر تھے اور غالباً یہ باپ کی محنت کا نتیجہ تھا کہ صاحب شروع ہی سے ایک نمایاں طالب علم تھے۔ 1942ءکے میٹرک کے امتحان میں تو پنجاب یونیورسٹی کے ٹاپ 50 میں آئے اور لیاقتی وظیفہ حاصل کیا۔ سوال پیدا ہوا کہ اب کیا کیا جائے؟ ہیڈ ماسٹر نے کہا کہ لاہور جا کر گورنمنٹ کالج میں پڑھو، بہت آگے جاﺅ گے۔ باپ نے سنا، تو بولے، مگر کیسے؟ تنخواہ میں گھر بمشکل چلتا ہے، کالج کا خرچہ کہاں سے آئیگا؟ پھر کچھ سوچ کر ماں سے بولے، وہ تمہارا وکیل بھائی بھی تو لاہور ہی میں ہوتا ہے۔ وہاں کیوں نہ بھیج دیں؟ وہ تو ٹھیک ہے، مگر کبھی آئے نہ گئے اور پھر اسکی بیوی بھی تو بہت نک چڑھی ہے، ماں نے مشکل بیان کی۔ ضرورت کے وقت تو گدھے کو بھی باپ بنایا جا سکتا ہے، جوابی دلیل آئی اور پھر یہ تو بیٹے کے مستقبل کا سوال ہے۔
غرض صاحب کی لاہور کی تیاری ہو گئی۔لوہے کا چھوٹا بکس اور مختصر سا بستر۔ چلتے وقت پچاس روپے باپ نے یہ کہہ کر ہاتھ پر رکھے، کہ میری جمع پونجی یہی ہے۔ احتیاط سے خرچ کرنا۔ صاحب ماموں کے گھر پہنچے تو دوپہر ہو چکی تھی۔ بھانجے کو دہلیز پر دیکھ کر ہوائیاں اڑ گئیں کہ یہ مصیبت کہاں سے آن ٹپکی۔ صاحب نے سامان لائن میں رکھا ا ور ڈرائنگ روم میں داخل ہوا ہی چاہتے تھے کہ ممانی کی آواز سنی، جوتا باہر اتارنا، کارپٹ گندا ہو جائیگا۔ اسکے بعد میاں بیوی دونوں غائب۔ مگر ساتھ والے کمرے سے تیز تیز بولنے کی آوازیں مسلسل آ رہی تھیں۔ ذکر خیر جاہل ماں باپ کی جاہل اولاد کی بدتمیزی کا ہی ہو رہا تھا۔ کوئی دو گھنٹے بعد دروازہ کھلا، تو شومئی قسمت کہ تھکن سے چور صاحب پاﺅں صوفے پر رکھے اونگھ رہے تھے۔ ممانی غصے سے دھاڑیں، پاﺅں صوفے پر مت رکھو، بدتمیز! اور اول فول بکتی دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ بس یہی فیصلے کا لمحہ تھا۔ صاحب نے سامان سنبھالا اور گھر سے باہر آ گئے۔
گورنمنٹ کالج پہنچے تو سورج غروب ہوا چاہتا تھا۔ کواڈرینگل ہوسٹل کے گیٹ کے پاس سامان رکھ دیا۔ کچھ سمجھ نہیںآ رہا تھا کہ اب کیا کریں؟ کالج میں داخلہ ہوا ہے، نہ ہاسٹل میں، کہاں جائیں ؟ آٹھ بجے کے قریب وارڈن، جو کہ ایک برطانوی استاد تھے، آئے۔ انہیں اپنی بپتا سنائی، تو میٹرک کا رزلٹ دیکھ کر بولے۔ تم کہیں نہیں جاﺅ گے۔ میرے کمرے میں ہی بستر ڈال لو۔ یوں دو برس تک انکے مہمان کی حیثیت سے انکے کمرے میں مقیم رہے۔ انٹرمیڈیٹ میں یونیورسٹی میں تیسری پوزیشن آئی۔ اس دوران ایک اخبار میں پارٹ ٹائم جاب بھی مل گیا۔ چنانچہ بی ۔ اے میں داخلہ کے ساتھ ہی نیو ہاسٹل منتقل ہو گئے۔ بی ۔ اے کے بعد ایم ۔ اے بھی اعزاز کے ساتھ پاس کیا۔ اس برس CSS میں بیٹھے۔ قسمت نے یاوری کی، اچھی پوزیشن کے ساتھ بہت اچھی سروس میں آگئے۔ ”سندھ کے ایک ضلع میں پوسٹنگ ہوئی ، تو والدین کو بھی ہمراہ لے گیا۔ اس دوران ماموں چل بسے۔ ممانی اور ان کی اکلوتی بیٹی پر تو گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔ ماں ان کے پاس مہینہ بھر رہ کر لوٹیں، تو بضد تھیں کہ میںصاحبزادی کے ساتھ شادی کر لوں جس سے میں نے سختی سے انکار کردیا۔ البتہ حسب توفیق ماں بیٹی کا خیال رکھا، اور اپنے ایک بیچ میٹ کے ساتھ اس کی شادی بھی کرا دی۔ پڑھی لکھی، سمجھدار خاتون تھیں، بہت اچھی نِبھ گئی۔ “ کہانی ختم ہوئی تو صاحب کی آنکھیں نم تھیں۔ بولے میرے سوا اس داستان کا کوئی بھی کردار حیات نہیں۔ چار برس ہوئے، صاحب بھی چل بسے۔ البتہ کسی کو صوفے پر پاﺅں رکھے دیکھوں یا خود یہ حرکت کروں تو یہ داستان آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے!

ای پیپر دی نیشن