کون سچا ہے کون جھوٹا۔ یہ طے کرنا میرے بس کی بات نہیں۔ کئی برسوں سے آزاد اور بے باک میڈیا کی محنت شاقہ کی بدولت اگرچہ یہ بیانیہ ہمارے ذہنوں پر حاوی ہوچکا ہے کہ سیاست دان چور اور لٹیرے ہوتے ہیں۔ ہمیں سبز باغ دکھاکر اقتدار میں آتے ہیں۔حکمرانی ملتے ہی مگر اپنی ذات کے لئے دولت اکٹھا کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پاکستانی روپوں میں نقدی کی صورت ملی اس رقم کو ڈالروں میں بدلنے کے لئے منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔ لانڈر ہوئے ڈالر غیر ملکوں میں قیمتی جائیدادیں خریدنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔
کئی مہینوں تک مسلسل دہرائی اس کہانی کے بعد 2016کے اپریل میں پانامہ دستاویزات منکشف ہوئیں۔ سیاست میں بھونچال آگیا۔ ان دستاویزات کی وجہ سے برپا ہوئے ہنگامے نے بالآخر نواز شریف کو تین بار پاکستان کا وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے ہاتھوں سیاست میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نااہل ہونا پڑا۔احتساب عدالتوں میں مقدمات چلے۔ ایک کیس میں اپنی دُختر سمیت جیل چلے گئے۔ ضمانت پر رہائی ملی۔ توقع ہے کہ آئندہ ہفتے چند دوسرے مقدمات کی وجہ سے دوبارہ وہاں پہنچ جائیں گے۔
نواز شریف کی سیاسی منظر نامے سے فراغت کے بعد اب کرپشن کہانیوں کا رُخ آصف علی زرداری کی جانب ہے۔بے نامی اکائونٹس کے بعد نیویارک میں مبینہ طورپر ان کا ایک فلیٹ ’’ظاہر‘‘ ہوگیا ہے۔ہمارے ذہنوں کو اب ان کی فراغت کے لئے تیار کیا جارہا ہے۔
دوبارہ کہے دیتا ہوں کہ مجھے اس بات سے غرض نہیں کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ ذہن کو جو حقیقت مسلسل پریشان کئے جارہی ہے وہ ہمارے میڈیا پر حاوی نیوز سائیکل ہے جو محض سیاست دانوں کے کارہائے نمایاں بے نقاب کرنے میں مصروف ہے۔
اس بے نقابی کے علاوہ بھی لیکن کچھ اہم ترین موضوعات ہیں جن کا لاکھوں گھرانوں کی روزمرہّ زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ ان پر توجہ کیوں نہیں دی جارہی۔
مثال کے طورپر کراچی ہے۔کئی برسوں تک وہ ہمارے لئے بھتہ خوروں کے گروہوں کے نرغہ میں گھرا نظر آیا۔ اس سے نجات پانے کے لئے آپریشن ہوا جو بہت کامیاب رہا۔ اس کامیابی کے بعد آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں معاشی اور ثقافتی اعتبار سے بہت رونق لگی نظر آنی چاہیے تھی۔ایسا مگر ہو نہیں پایا ہے۔ اب اس شہر کو تجاوزات سے پاک کرنے کی مہم شروع ہوگئی ہے۔
اپنے رزق کے حصول کے لئے فقط صحافت پر انحصار کرنے والے مجھ جیسے شخص کے لئے قبضہ مافیا سے ہمدردی ممکن ہی نہیں۔عارف حسن لیکن ہمارے ملک میں تعمیرات کے شعبے پر تحقیق کرنے والا ایک بہت ہی معتبر نام ہے۔ ٹھوس اعدادوشمار کی مدد سے ساری عمر انہوں نے کراچی کوسماجی علوم کے ایک انسان دوست محقق کے طورپر سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
اس شہر میں ناجائز تجاوزات کے خلاف چلائی مہم کے حوالے سے انہوں نے یکے بعد دیگرے کئی مضامین لکھے ہیں۔ان میں سے ایک میں انہوں نے یہ پریشان کن انکشاف کیا کہ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں 72فی صد یعنی سو میں سے 72افراد روزانہ کی دیہاڑی کی بنیاد پر رزق کماتے ہیں۔ان کے اندازے کے مطابق کوئی متبادل فراہم کئے بغیر ناجائز تجاوزات کے خلاف چلائی مہم نے کم از کم 12لاکھ گھرانوں کو متاثر کیا ہے۔
ان کی بتائی تعداد قوم کا درد رکھنے کے دعوے دار میڈیا کے لئے بہت پریشان کن ہونی چاہیے تھی۔ اس ضمن میں لیکن میں نے ٹی وی سکرینوں پر وہ ڈرامائی ہلچل نہیں دیکھی جو صف اوّل کے سیاستدانوں کو بے نقاب کرنے کے لئے صرف کی جاتی ہے۔
دُنیا بھر کے میڈیا میں Celebritiesپر توجہ دیتے ہوئے دھندا چلایا جاتا ہے۔ بے نقاب ہوئے سیاستدان اس تناظر میں یقینا توجہ کے طلب گار ہیں۔ان کی بے نقابی کے علاوہ مگر ممکنہ طورپر 12لاکھ گھرانوں کا روزگار چھن جانے پر توجہ دینا بھی ضروری ہے۔
سیاستدانوں کی مبینہ حرص پر مبنی جو بیانیہ کئی برسوں سے ہماری توجہ پر قابض ہے اس کے نتیجے میں ذاتی طورپر انتہائی ایمان دار مانے عمران خان صاحب اپنی کرشماتی شخصیت اور 22سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ ان کی حکومت قائم ہوجانے کے بعد ہمیں چند Feel Goodکہانیوں کی بھی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو اعتبار آئے کہ ہمارے مقدر میں اچھے دن بھی لکھے ہوئے ہیں۔ مثبت کہانیاں مگر میسر نہیں۔ اگلے برس جون سے برٹش ایئرویز اسلام آباد کے لئے تقریباََ ایک دہائی کے تعطل کے بعد پروازیں شروع کردے گی۔ یقینا یہ ایک اچھی خبر ہے۔ خلقِ خدا کی اکثریت کی روزمرہّ زندگی کے حوالے سے مگر یہ بہت بڑی خبر نہیں اور نہ ہی یہ وعدہ بھی کہ لاہور میں بسنت کا تہوار منانے کی اجازت دی جائے گی۔
1975سے اسلام آباد کا رہائشی ہوتے ہوئے میرے لئے پریشان کن خبر تو یہ ہے کہ اس شہر کی حفاظت اور امن وامان کی صورت حال کے ذمہ دار وزیر شہریار آفریدی صاحب بہت اعتماد سے یہ اعلان کردیتے ہیں کہ اس شہر کے مہنگے ترین سکولوں میں جانے والی بچیوں میں 75فی صد ایسے نشے کی عادی ہوچکی ہیں جس کی طلب کو پورا کرنے کے لئے روزانہ ہزاروں روپے درکار ہوتے ہیں۔ محض چند بہت ہی خوشحال گھرانوں کے سوا کسی اور گھر سے تعلق رکھنے والے بچے اپنی علت کے افاقے کے لئے کیا ذرائع استعمال کررہے ہیں اسے سوچنے سے میرا پتھر ہوا دل بھی گھبرا جاتا ہے۔ دوبچیوں کا باپ ہوںاور ان کی خوشی کی خاطر کئی بار وہ کچھ کیا جس کی مجھ سے توقع ہی نہیں کی جاسکتی تھی۔
مجھے سوفی صد یقین ہے کہ شہریار آفریدی کی جانب سے کیمرے پر ہوئے انکشاف کے بعد اسلام آباد کے کئی گھرانوں میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہوگی۔اس پریشانی کو اجاگر یا اس کا تدارک کرنے کے لئے مجھے اپنے میڈیا میں وہ تڑپ نظر نہیں آئی جو سیاستدانوں کی کرپشن کی بنیاد پر ’’ایک اور وکٹ‘‘ گرنے کے ضمن میں نمایاں دِکھتی ہے۔
دُنیا کے کسی بھی ملک میں جب کوئی نئی حکومت آتی ہے تو وہ ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ لوگوں کو یہ اُمیددلائی جائے کہ معاشی اعتبار سے حالات بہتر ہورہے ہیں۔ہماری نئی حکومت کے آتے ہی بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھادی گئیں۔ مان لیتے ہیں کہ موجودہ حکومت کو خزانہ خالی ملا۔ یہ قیمت بڑھانا ضروری تھا۔ اس کے علاوہ ہمارے زرمبادلہ سے جڑے مسائل بھی تھے۔ ان کے تدارک کے لئے سعودی عرب،یو اے ای اور چین جیسے دوستوں سے معاونت کی خبر آئی۔اس معاونت کے حصول کے باوجود IMFسے سات سے آٹھ ارب ڈالر لینا ضروری ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں۔
کئی ’’کڑوی‘‘ گولیاں نگل لینے کے بعد مگر اب ’’شفا‘‘ کی امید بھی تو دلائی جائے۔نواز شریف کے بعد آصف علی زرداری کے بھی جیل جانے سے تو مجھے اور آپ کو شفا نہیں ملے گی۔ہم سے اکثر ان کی نااہلی اور جیل کو شاید فواد چودھری کے بیان کردہ ’’گاجروں کا دیا درد‘‘ سمجھتے ہوے نظرانداز کردیں گے۔ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ منگل کے روز پاکستان میں سونے کی قیمت دن میں دوبار بڑھی اور بالآخر یکمشت فی تولہ قیمت میں 1400روپے کا اضافہ ہوگیا۔
سونے کی قیمت میں یہ ہوشربااضافہ مجھ جیسے معاشی اعتبار سے قطعی جاہل کے لئے اشارہ دیتا ہے کہ جن لوگوں کے پاس وافر سرمایہ ہے وہ اسے کاروبار میں نہیں لگارہے۔ ڈالروں کو خرید کر ذخیرہ کرنے کے بعد اب سونے پر توجہ دی جارہی ہے۔ سادہ ترین لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ جنہیں نت نئے کاروبار متعارف کرواکر معاشی محاذ پر رونق لگانا آتی ہے محاورے والا ’’ہاتھ روکے‘‘ہوئے ہیں۔ ان کی مٹھی بند رہی تو اس ملک کے کروڑوں دیہاڑی دار افراد آنے والے کئی دنوں تک اداس اور پریشان رہیں گے۔ اگلے برس کے جون میں برٹش ایئرلائنز کی لندن سے اسلام آباد آئی پرواز اس اداسی کا ازالہ نہیں کر پائے گی۔
کڑوی گولیاں نگلنے کے بعد ’’شفا‘‘ کی امید بھی تو دلائیں
Dec 21, 2018