معاشی ترقی کے بغیر کوئی ملک بھی ترقی نہیں کر سکتا۔ پاکستان کا حالیہ معاشی بحران جو پندرہ ماہ قبل شروع ہوا تھا۔ سُکڑنا شروع ہو گیا ہے۔ بہتر اور آسان معاشی پالیسیوں نے بین الاقوامی اداروں کو پاکستان کی تعرف اور اس اعتراف پر مجبور کر دیا کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لحاظ سے بہترین ملکوں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
امریکہ سمیت دیگر یورپی اداروں کی طرف سے انتہائی حوصلہ افزا تبصرے اور رپورٹس بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنے ہیں۔ اس سے پاکستان کا امیج عالمی سطح پر اُجاگر اور مضبوط ہوا ہے۔ مضبوط معیشت کسی بھی قوم اور ملک کی بہترین پہچان اور عالمی سطح پر اس کی ریٹنگ کا تعین کرتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر قوموں کی حالیہ صف بندی کا آپ ایک جائزہ لیں آپ پر یہ حقیقت واضح ہوتی چلی جائے گی کہ معاشی طور پر مضبوط ہونا ہی عالمی مسابقت کی جان ہے۔
’’امریکہ قوموں کی عالمی ریٹنگ میں اس لیے نمبر ون اور سُپر پاور ہے کہ اس کی معیشت مضبوط ہے۔ اس کی معاشی پالیسیاں مضبوط ہیں اور اس کے معاشی ادارے مسلسل متحرک اور روبہ عمل ہیں۔ امریکی ادارے دنیا کے ہر ملک سے معاشی مفادات کو سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘
آپ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کاجائزہ لیں اس میں وِیٹو پاور صرف اُن چند ممالک کو حاصل ہے جو دنیا میں معاشی لحاظ سے انتہائی مضبوط ہیں۔ معاشی لحاظ سے کمزور ملکوں کو پسماندہ ممالک کی لِسٹ میں ڈال کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ دنیا اُن کی اچھائیوں پر بھی نظر ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ قوموں کی عالمی دوڑ میں معاشی لحاظ سے مضبوط اور مستحکم ملک ہی شامل ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے پاس بھی اپنی معیشت کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے بے شمار ذرائع اور وسائل موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان وسائل اور ذرائع کو آپریشنل کر کے ملک اور قوم کے فائدے کے لیے استعمال کیا جائے۔
’’پاکستان کے پاس تین کھرب ٹن سے بھی زائد ماربل اور گریفائٹ موجود ہے۔ ان ذخائر کا بڑا حصہ یعنی 78 فیصد خیبر پختونخواہ میں ہے۔ جبکہ باقی ماندہ ذخائر فاٹا، بلوچستان اور سندھ میں ہیں۔ پاکستان میں اب تک کان کنی کے پرانے اور فرسودہ طریقے استعمال ہو رہے ہیں۔ جس سے کان کُنی کے دوران ماربل کی ایک بڑی مقدار ضائع ہو جاتی ہے۔ جدید مشینری اور ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے پاکستان اربوں ڈالر کا زرمبادلہ ماربل اور گریفائٹ سے حاصل کر سکتا ہے۔ ہماری سادگی اور غیروں کی عیاری ملاحظہ فرمائیں…کئی ترقی یافتہ ممالک پاکستان سے سستے داموں یہ ہی ماربل اور گریفائٹ درآمد کر کے اسے اپنے ملک کے نام سے بین الاقوامی منڈی میں فروخت کر کے بھاری زرمبادلہ کما رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کی عدم توجہ اور منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے صرف دس فیصد ویلیو ایڈڈ ماربل اور گریفائٹ وغیرہ برآمد کیا جا رہا ہے جبکہ باقی خام مال کی شکل میں انتہائی کم نرخ پر فروخت ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک ایسے بااختیار ادارہ کی اشد ضرورت ہے جو قومی مفادات پر گہری اور کڑی نظر رکھے۔ اس قومی ادارہ کے زیر اہتمام ہر شعبے کے ایکسپرٹ پر مشتمل تھنک ٹینک بنائے جائیں جو ملکی اور قومی ضرورتوں کے مطابق پالیسیاں بنائیں اور اُن پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے سخت اور کڑا نظام قانونی شکل میں ہونا چاہئے۔ پاکستان قومی و ملکی مفادات کے تحفظ کا مؤثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کر چکا ہے جس کی تفصیل لمبی ہے۔آزادی کے بعد70سال سے زائد طویل عرصہ میں ہم اپنے معاشی مفادات کے تحفظ اور تلاش کا مربوط نظام نہیں بنا سکے۔
وزیراعظم عمران خان نے اس جمود کو توڑتے ہوئے معاشی ترقی کے نئے راستے تلاش کر نے کا آغاز کر دیا ہے۔’’انگیج افریقہ پروگرام‘‘ وزیراعظم عمران خان کے معاشی ترقی کے خوبصورت خواب کی سنہری تعبیر بن سکتا ہے۔انگیج افریقہ پروگرام کے تحت افریقی منڈیوں اور وسائل تک پاکستان کی رسائی کو ممکن بنایا جائے گا۔گزشتہ دنوں وزارت خارجہ پاکستان کے خوبصورت ہال میں انگیج افریقہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ یہ کانفرنس بہت کامیاب اور ہائوس فل ثابت ہوئی۔اس میں تمام افریقی ممالک نے خصوصی دلچسپی اور سفارتی گرم جوشی کا بے مثال اور عمدہ مظاہرہ کیا۔ مراکش کا سفارت خانہ اور مراکش کے عزت مآب سفیر محمد کرمون انگیج افریقہ کانفرنس کو کامیاب بنانے میں خصوصی دلچسپی کا اظہار فرماتے رہے۔’’پاکستان نے افریقی ممالک‘ یوگنڈہ‘ انگولا‘ روانڈا‘ گھانا‘ آئیوری کوسٹ اور جبوتی میں اپنے سفارت خانے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ کینیا‘ نائیجیریا‘ ایتھوپیا‘ سینگال اور الجیریا میں کمرشل قونصل خانے قائم کئے جائیں گے۔‘‘
پاکستان کی طرف سے معیشت کو مضبوط بنانے ے لئے یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے۔’’انگیج افریقہ پروگرام کا آغاز‘‘ ویل ڈن وزیراعظم 72سال کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ گیارہ افریقی ممالک میں پاکستان اپنے سفارت خانے یا قونصل خانے کھولنے جا رہا ہے۔ ان ممالک کے ساتھ سفارتی اور تجارتی دونوں راستے ہموار کئے جا رہے ہیں۔ اس سے پاکستان کو سالانہ اربوں ڈالر زرمبادلہ کے حصول کی توقع کی جا رہی ہے۔وزیراعظم عمران خان کے معاشی ویژن کو کامیاب بنانے کے لئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنی بھر پور صلاحیتوں اور تجربے کو بروئے کار لارہے ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے اعلیٰ افسران سمیت تمام ذمہ داران ’’LOOK‘‘ افریقہ پروگرام کو کامیاب بنانے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ لک افریقہ پروگرام انگیج افریقہ پروگرام کا حصہ ہے۔انگیج افریقہ پروگرام کی اہمیت وافادیت کو سمجھنے کیلئے ہم قارئین کرام کو پاکستان میں متعین مراکش کے سفیر عزت مآب محمد کرمون صاحب سے ملاتے ہیں۔ چند روز قبل الیکٹرانک میڈیا کے ایک گروپ کے ساتھ انہوں نے انگیج افریقہ پروگرام کے بارے میں تفصیلی گفتگو فرمائی۔
مراکش کے پاکستان میں متعین سفیر عزت مآب محمد کرمون نے کہا وزیراعظم عمران خان کا انگیج افریقہ پروگرام ایک انقلابی قدم ہے۔ اس پروگرام کے نتیجے میں پاکستان اور افریقہ کے درمیان تجارت کی نئی راہیں کھیلیں گی اور تجارتی حجم میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔ افریقہ پاکستان کے لئے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔افریقی ممالک سی پیک میں بھی غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں۔ افریقی خطہ توانائی‘ تجارت انفراسٹرکچر اور سیاحت کے حوالے سے بے پناہ صلاحیت کا حامل ہے۔ پاکستان کو افریقی منڈیوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ سفیر محمد کرمون نے کہا پاکستان کے اقدامات کے نتیجے میںافریقی براعظم اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات اور باہمی تعاون ایک نئے دور میں داخل ہو جائیگا۔سفیر محمد کرمون نے کہا 2017ء میں پاکستان مراکش بزنس کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پاکستان اور مراکش کے درمیان موجودہ تجارتی حجم ایک ارب ڈالر ہے۔ پاکستان اور مراکش کے درمیان تجارت کم ترین سطح پر ہے۔ ہمیں اس پر توجہ دینے اور تجارتی حجم کو فوری طور پر بڑھانے کی ضرورت ہے۔سفیر محمد کرمون نے الیکٹرانک میڈیا سے اپنی تفصیلی گفتگو میں کہا مراکش بھی سی پیک کا حصہ بن سکتا ہے۔ چین کے صدر شی نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ شروع کر رکھا ہے اور سی پیک بھی اس منصوبہ کا اہم حصہ ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ کے تحت منصوبے افریقہ میں بھی جاری ہیں۔