سرینگر (اے پی پی+بی بی سی+ نیٹ نیوز) مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے مسلط کردہ فوجی محاصرہ جمعہ کو 138ویں روز میں داخل ہوگیا جس کی وجہ سے وادی کشمیر اور جموں اور لداخ خطوں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔ صرف سری نگر مسجد میں نماز جمعہ ہوسکی۔ بھارتی فوج نے کشمیریوں کو پھر مساجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے روک دیا اور مساجد کو بدستور تالے لگائے رکھے۔ اس موقع پر ہزاروں کشمیری کرفیو توڑ کر سڑکوں پر نکل آئے اور بھارت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ کشمیری نوجوانوںنے مقبوضہ علاقے میں گزشتہ چار ما ہ سے جاری انٹرنیٹ کی بندش کے خلاف سرینگر میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ انٹرنیٹ سروس کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا ۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ’’ہمارا مستقبل محفوظ کرواور انٹرنیٹ بحال کر و‘‘جیسے نعرے درج تھے ۔انہوںنے اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بھی بلند کئے۔ ایک یوٹیوب چینل کے ایڈمن شوکت احمد نے میڈیا کو بتایا کہ انٹرنیٹ کی مسلسل معطلی کی وجہ سے ان کاروزگار بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ادھرپولیس نے جموںوکشمیر یوتھ کانگرس کے صدر اودے چب کو جموں شہر میںایک مظاہرے کے دوران گرفتار کرلیا۔ یہ مظاہرہ شہریت کے متنازعہ قانون کے خلاف حالیہ مظاہروں کے دوران نئی دلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء کے خلاف پولیس کی کارروائی کے خلاف کیاگیا ۔ کشمیر کی 600 سال پرانی تاریخی سری نگر جامع مسجد پانچ ماہ تک بند رہنے کے بعد جمعے کو نماز کے لیے کھول دی گئی۔ انڈین حکومت نے پانچ اگست کو پارلیمنٹ میں ایک بل کے ذریعے انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کی آئینی خودمختاری ختم کرنے کے بعد وہاں کئی پابندیاں نافذ کی تھیں اور جامع مسجد کو بھی مقفل کردیا گیا تھا۔ تقریباً پانچ ماہ کے محاصرے کے بعد جمعے کو جامع مسجد میں مقامی لوگوں نے نماز ادا کی۔ جامع مسجد کے خطیب میر واعظ عمر فاروق مسلسل گھر میں نظر بند ہیں، تاہم حکومت کہتی ہے کہ جامع مسجد میں جمعے کے اجتماع کی بحالی امن کی واپسی کی علامت ہے۔کشمیریوں نے 19 ہفتوں بعد تاریخی جامع مسجد میں جمعے کے اجتماع کی اجازت کا خیر مقدم تو کیا تاہم بار بار مسجد میں عیدین یا جمعہ کی نمازوں پر پابندی کو مذہبی معاملات میں حکومت کی مداخلت قرار دیتے ہیں۔ ایک کشمیری نوجوان شاہد نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا ’عید کے روز بھی مسجد کا محاصرہ نہیں ہٹایا گیا، عید میلاد کی تقریب کی اجازت نہیں دی گئی۔ آج 19 ہفتوں بعد یہاں آذان ہوئی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ آج ہماری عید ہے۔‘شاہد کا یہ بھی کہنا تھا کہ جامع مسجد اور دوسری بڑی خانقاہوں پر کشیدہ حالات کے دوران پہرے بٹھانے سے لوگوں میں پہلے سے موجود ناراضگی اور غصے میں اضافہ ہوتا ہے۔ جمعے کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مسجد کے امام عبدالحیی کا کہنا تھا ’پوری دنیا میں مسلمان ایک آزمائشی دور سے گزر رہے ہیں، اور کشمیر پر بھی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ مسجد کا تقدس ہر قیمت پر قائم رہنا چاہیے۔ نماز کے بعد نوجوانوں نے ’ہم کیا چاہتے، آزادی‘ کے روایتی نعرے لگائے تاہم بعد میں نوجوان پرامن طریقے سے منتشر ہوگئے۔ مظاہرین نے جامع مسجد کے خطیب میر واعظ عمر فاروق کی مسلسل نظربندی کے خلاف ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔ سرینگر کے پولیس سربراہ ڈاکٹر حسیب مغل کہتے ہیں ’مقامی لوگوں اور مسجد کی انتظامیہ نے ہمارے ساتھ تعاون کیا۔ یہ امن کی بحالی کی طرف ایک مرحلہ وار سفر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسجد میں معمول کی مذہبی سرگرمیاں بحال ہوجائیں۔‘