بھارت کی جانب سے جعلی خبریں چلائے جانے کا انکشاف

Dec 21, 2020

شہزاد احمد چوہدری 
sehota62@hotmail.com
ای یوڈس انفولیب ادارے نے سنسنی خیز انکشافات پرمبنی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق یورپی یونین اوراقوام متحدہ کوگمراہ کرنے کیلئے بھارت پاکستان کے خلاف 2005 ء سے جعلی خبریں پھیلانے کے لیے 750 میڈیاہاؤسز،550 ویب سائٹس کو استعمال کررہا ہے۔جعلی خبریں پھیلانے کے لیے 10سے زائدجعلی این جی اوزکو بھی استعمال کیا گیا ہے۔ بھارت کی اس پروپیگنڈہ مہم کامقصدپاکستان کودنیاسے الگ تھلگ کرناتھا۔ سابق صدریورپی پارلیمنٹ کوجعلی این جی اوکاسربراہ بناکرپیش کیاگیا۔ جعلی این جی اوکے ذریعے ہیومن رائٹس کونسل میں پاکستان پرالزامات لگائے گئے۔پاکستان کے خلاف ہیومن رائٹس کی جعلی تنظیموں کوفنڈنگ بھی کی گئی۔ پاکستان کومنفی اندازمیں دکھانے کیلئے جنیوا،برسلزاور دنیاکے دیگرشہروں میں جعلی میڈیاہاؤسزبنائے گئے۔ان اطلاعات پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بھارت جعلی خبر رساں اداروں اور تھنک ٹینکس کے ذریعے شدت پسندی کی فنڈنگ اور اس کو بیرون ملک ترغیب دے رہا ہے۔ یورپی یونین کے ڈِس انفو لیب گروپ کی طرف سے مذموم سرگرمیوں کے بڑے بھارتی گروپ کے انکشاف سے پاکستان کے برسوں سے جاری مؤقف کی توثیق ہورہی ہے۔انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ ہٹ دھرم بھارتی حکومت کا نوٹس لے جو عالمی نظام کے استحکام کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ پاکستان خطے میں جمہوریتوں کو کمزور کرنے کے لیے بھارت کی مذموم سرگرمیوں کے بارے میں مسلسل عالمی برادری کی توجہ مبذول کراتا رہا ہے۔ بھارت جعلی خبر رساں اداروں اور تھنک ٹینکس کے ذریعے شدت پسندی کی فنڈنگ اور اس کو بیرون ملک ترغیب دے رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے حال ہی میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے بارے میں ایک  مکتوب اقوام متحدہ کے حوالے کیا ہے۔
گزشتہ برس یورپی یونین کی ڈِس انفو لیب نے 65 ممالک میں بھارتی مفادات کے لیے کام کرنے والے 265 مربوط جعلی مقامی میڈیا آؤٹ  لیٹس کا نیٹ ورک بے نقاب کیا تھا جس میں متعدد مشتبہ تھنک ٹینکس اور این جی اوز بھی شامل تھیں۔بھارتی کرونیکل کے عنوان سے تحقیقات میں ایک اور بھارتی نیٹ ورک بے نقاب ہوا جس کا مقصد بھارت میں پاکستان مخالف اور چین مخالف جبکہ بھارت کے اپنے حق میں جذبات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا تھا۔بین الاقوامی سطح پر یہ نیٹ ورک بھارت کی قوت کو مصنوعی طریقے سے مستحکم اور تشخص کو بہتر بنانے کے ساتھ حریف ممالک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے کام کررہا تھا۔تاکہ بھارت کو یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ جیسے اداروں کی مزید حمایت سے فائدہ حاصل ہو۔اس کام کے لیے نیٹ ورک نے انتقال کر جانے والے انسانی حقوق کے کارکن اور صحافیوں کی جعلی شخصیت کا استعمال کیا اور میڈیا اور پریس کے اداروں مثلاً یورپی یونین آبزرور، دی اکانومسٹ اور وائس آف امریکا کی نقالی کی بھی کوشش کی۔اس کے علاوہ نیٹ ورک نے یورپی پارلیمان کے لیٹر ہیڈ، جعلی نمبروں کے ساتھ اوتار کے تحت رجسٹرڈ ویب سائٹس کا استعمال کیا۔ اقوامِ متحدہ کو جعلی پتے فراہم کیے اور اپنے تھنک ٹینکس کی کتابوں کی اشاعت کے لیے اشاعتی ادارے قائم کیے۔'انڈین کرونیکلز' کے نام سے ہونے والی اس نئی تحقیق کے مطابق اس منصوبے کے تحت جس شخص کی شناخت کو چرا کر دوبارہ زندہ دکھایا گیا ہے۔ اسے درحقیقت انسانی حقوق کے قوانین کے بانیوں میں سے شمار کیا جاتا ہے اور ان کی 2006 میں 92 سال کی عمر میں وفات ہو گئی تھی۔ای یو ڈس انفو لیب کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ایلیگزانڈر الافیلیپ نے اس بارے کہا کہ انھوں نے ڈس انفارمیشن پھیلانے کی غرض سے مختلف سٹیک ہولڈرز پر مشتمل کسی نیٹ ورک میں اتنی ہم آہنگی نہیں دیکھی۔ہم نے اس نوعیت کا اتنا بڑا نیٹ ورک اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا۔ گذشتہ سال اس نیٹ ورک کے بارے میں تحقیق سامنے لانے کے باوجود اس نے اپنے کام کو جاری رکھا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتنا مضبوط اور بااثر نیٹ ورک ہے۔ جس نوعیت کا یہ آپریشن ہے اور جتنی وسیع اس کی پہنچ ہے، یہ کافی غور طلب بات  ہے اور اتنا بڑا آپریشن آپ محض چند کمپیوٹرز کے ساتھ نہیں چلا سکتے، اس کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہوتی ہے۔تحقیق کے نتیجے یہ بات آتی ہے کہ سری واستوا گروپ سے منسلک ایک پر اسرار ٹیکنالوجی کمپنی 'اگلایا' کی، جس کے مالک کا نام بظاہر انکور سری واستوا ہے اور اس کمپنی کا پتہ بھی وہی ہے جو سری واستوا گروپ سے منسلک ہر ادارے کا ہے۔ گلایا کی ویب سائٹ اس سال فروری سے غیر فعال ہے لیکن چند برس پہلے تک یہ کمپنی دنیا بھر میں اپنی 'ہیکنگ اور جاسوسی' کرنے والے آلات اور ٹیکنالوجی اور 'انفارمیشن وار فئیر سروس' کی بھرپور تشہیر کر رہی تھی۔اگلایا نے اپنے اشتہار میں دعوی کیا تھا کہ ان کے پاس ملکوں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت ہے اور تین سال قبل امریکی جریدے فوربز کو دیے گئے انٹرویو میں انکور سری واستوا نے دعوی کیا تھا کہ وہ صرف 'انڈین خفیہ اداروں کو اپنی خدمات اور مصنوعات فراہم کرتے ہیں۔' سری واستوا گروپ سے منسلک تیسرا اہم نام ڈاکٹر پرامیلا سری واستوا کا ہے جو کہ گروپ کے بانی ڈاکٹر گووند نارائن کی اہلیہ، انکت سری واستوا کی والدہ اور گروپ کی چئیر پرسن ہیں۔
۔بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز سے کام کرنے والے ادارے ای یو ڈس انفو لیب نے گذشتہ سال بھی اسی نوعیت کے انکشافات کیے تھے لیکن تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سری واستوا گروپ سے چلائے جانے والے اس نیٹ ورک کی پہنچ کم از کم 116 ممالک اور نو مختلف خطوں تک ہے۔ یہ نیٹ ورک جنیوا میں اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق (یو این ایچ سی آر) اور برسلز میں یورپی پارلیمان پر اثر انداز ہونے کے کوشش کرتا ہے۔اس کے علاوہ اس نیٹ ورک کی حکمت عملی کا بڑا اہم جزو ہے کہ میڈیا کے جعلی مقامی اداروں پر شائع ہونے والی خبروں کو بھارت کی سب سے بڑی نیوز وائر ایجنسی ایشین نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) کے ذریعے معتبر ظاہر کرے اور مزید آگے پھیلائے۔تحقیق میں اس بات کی مسلسل نشاندہی کی گئی کہ کئی ادارے اور این جی اوز، چند جو اقوام متحدہ سے منظور شدہ ہیں اور بہت سے وہ جو منظور شدہ نہیں ہیں، اور ان کا بظاہر جنوبی ایشیا اور سیاست یا انسانی حقوق سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن وہ متعدد بار اقوام متحدہ کے فورم پر پاکستان کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور تحقیق کے مطابق ان میں ادارے میں سے واضح اکثریت سری واستوا گروپ سے منسلک ہے۔پھر گذشتہ سال مارچ میں ہونے والے ایک سیشن کے دوران یو این سے تسلیم شدہ اور سری واستوا گروپ سے منسلک ایک این جی او گروپ نے اپنے مقررہ وقت پر تقریر کرنے کے لیے یوانا باراکووا نامی تجزیہ کار کو جگہ دی۔جن کا تعلق یورپین فاؤنڈیشن فار ساؤتھ ایشیا سے تھا جو کہ اقوام متحدہ سے منظور شدہ نہیں ہے۔ 2015 میں حکومت پاکستان کی شکایت پر اقوام متحدہ نے افریقہ سے تعلق رکھنے والی ایسی دو این جی اوز کی منظور شدہ حیثیت ختم کر دی تھی۔ کیونکہ انھوں نے اقوام متحدہ کے فورم پر 'پاکستان کے خلاف متنازع بیانات دیے تھے'۔
اس کے علاوہ نیٹ ورک نے یورپی پارلیمان کے لیٹر ہیڈ، جعلی نمبروں کے ساتھ اوتار کے تحت رجسٹرڈ ویب سائٹس کا استعمال کیا اقوامِ متحدہ کو جعلی پتے فراہم کیے اور اپنے تھنک ٹینکس کی کتابوں کی اشاعت کے لیے اشاعتی ادارے قائم کیے۔مجموعی طور پر 95 ممالک میں 500 جعلی مقامی میڈیا آو ¿ٹ لیٹس کے نیٹ ورک نے پاکستان (یا چین) کے بارے میں منفی بیانیے کے فروغ میں مدد دی، اس آپریشن میں 116 ممالک اور 9 خطوں کو کور کیا گیا۔گزشتہ برس تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی بھارتی اسٹیک ہولڈرز، جس کے تھنک ٹینکس، این جی اوز اور سری واستوا گروپ کی کمپنیوں سے تعلقات ہیں وہ جعلی خبروں کے ادارے چلارہے ہیں۔ انہوں نے بقیہ بھارتی نیٹ ورک بشمول جعلی میڈیا آوٹ لیٹس مثلاً ای پی ٹوڈے، ٹائمز آف جینیوا اور نئی دہلی ٹائمز پر پاکستان مخالف مواد کو دوبارہ شائع کیا، زیادہ تر ویب سائٹس ٹوئٹر پربھی موجود ہیں۔دفترخارجہ نے پاکستان اور بین الاقوامی اداروں کو بدنام کرنے کی بھارت کی وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا مہم کو منظم حربہ قرار دیتے ہوئے مذمت کی تھی۔ترجمان دفترخارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ بھارت کے پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ یورپی یونین کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 15 برس سے بھارت جعلی خبروں کے ذریعے پاکستان مخالف پروپیگنڈے میں ملوث تھا۔ بھارتی غلط معلومات اور پروپیگنڈا مہم بھارت کے پاکستان کے خلاف مہم کا حصہ ہے۔ ہم اس معاملے کو تمام ممکنہ پلیٹ فارمز پر اٹھائیں گے۔ بھارت اس وقت عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے سامنے مکمل طور پر برہنہ ہو چکا ہے۔
یورپی یونین کے صدر دفتر برسلز میں بہت سے صحافی اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد سے مختلف پلیٹ فارمز پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ برسلز میں مقیم اور یورپ معاملات پر گہری نظر رکھنے والے معروف سینیئر صحافی خالد حمید فاروقی نے اس حوالے سے کہا، ''بھارتی خفیہ ایجنسی را یورپ کے تمام بڑے شہروں میں اپنی سرگرمیاں ایک عرصے سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستانی ریاست کے خلاف پروپیگنڈا اور غلط اور جعلی خبروں کو پھیلانے کا سلسلہ نیا نہیں ہے۔ اس بارے میں وقتاً فوقتاً رپورٹیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ اے این آئی بھارتی خفیہ ایجنسی کا ایک خاص پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے وہ 'ای پی ٹوڈے‘ یا 'یورپین کرونیکل‘ جیسی ویب سائٹس پر یہ تاثر دیتا ہے کہ یہ یورپی پارلیمان کا ترجمان ہے۔ ان پر بڑے بڑے لکھاریوں کے نام سے آرٹیکلز شیئر کیے جاتے رہے ہیں اور برسلز کی نجی نشستوں میں یورپی پارلیمان کے اراکین کی گفتگو کو ان ویب سائٹس پر یورپی پارلیمان کے سرکاری موقف کے طور پر پیش کیا جاتا تھا اور اس تمام مواد کو مودی سرکار کی پسندیدہ ایجنسی اے ین آئی ہندوستان کے عوام کے لیے شائع کرتی تھی۔‘‘

مزیدخبریں