پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اپنی عزت بچائیں اور انتظار فرمائیں، صبر بھی کریں کیونکہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ عزت بچانے کا مشورہ اس لیے دیا ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں وہ کوئی بھی تحریک چلائیں اس کا انجام یا اختتام ناکامی پر ہی ہو گا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت حکومت پانچ سال پورے کرے گی۔ اس کے بعد اقتدار میں یا اختیار میں تبدیلی آئینی اور جمہوری طریقے سے ہی ہو گی۔ آئینی اور جمہوری طریقہ یہی ہے کہ حکومت پانچ سالہ مدت پوری ہونے کے بعد عام انتخابات کی صورت نئے حکمرانوں ک فیصلہ ہو گا۔ عزت بچانے کا مشورہ اس لیے بھی دیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں محترم ہیں اور ان سیاسی جماعتوں میں شامل درجنوں سیاستدان نہایت محترم، محب وطن، تعمیری سوچ کے حامل اور ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اس لئے ان تمام محب وطن، ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ رکھنے والوں کی عزت مجھے نہایت بہت عزیز ہے۔
اپوزیشن جماعتیں ہمیشہ سے حکومت مخالف تحاریک چلاتی رہی ہیں۔ مظاہرے بھی کرتی رہی ہیں، عوامی جذبات کو بھی بھڑکاتی رہی ہیں۔ حکومت کوئی بھی ہو، اپوزیشن میں کوئی بھی ہو جو اقتدار میں نہیں ہوتا اسے سب کچھ برا ہی نظر آتا ہے اور اسے سب کچھ خراب محسوس ہوتا ہے، اسے ہر طرف تباہی نظر آتی ہے یہ عمومی رویہ ہے اور سیاسی جماعتوں کا اپوزیشن میں رہتے ہوئے کام کرنے کا یہی انداز رہا ہے۔ اسے بدقسمتی کہیئے کہ اپوزیشن کبھی اقتدار کی سیاست کے بغیر کام نہیں کرتی۔ حالانکہ پارلیمانی طرز حکومت میں اپوزیشن کا کردار یا اپوزیشن کی ذمہ داری حکومت سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ حزب اختلاف حکومت کی سمت کو درست کرنے اور اسے راہ راست پر لانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ہے لیکن پاکستان میں اپوزیشن کی جماعتیں حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے انہیں ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے مشورہ دینے کے بجائے، حکومتی پالیسیوں کو درست کرنے اور حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے بجائے ہر وقت اس کی مخالفت میں مصروف رہتی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ ترقیاتی کاموں کی بھی مخالفت کرتی ہیں۔ یہی ہماری تاریخ اور روایت ہے اور کوئی اس روایت کو توڑنے یا بدلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہر کوئی یہ کہتا ہے جو ہمارے ساتھ کیا گیا ہے ہم بھی وہی کریں گے۔ حالانکہ اس کھیل میں نقصان صرف اور صرف ملک و قوم کا ہوتا ہے لیکن ملک و قوم کی خدمت کے دعوے دار علمبردار سیاست کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ اس مفادات کی سیاست میں ملک و قوم کا ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ان دنوں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل تمام سیاسی جماعتیں بھی اس فارمولے اور اسی حکمت عملی کے تحت کام کر رہی ہیں۔ یہ کسی طریقے سے بھی ملک و قوم کی خدمت نہیں ہے۔ کیا حکومت گرانے ایجنڈا لے کر آگے بڑھنا ملک کی خدمت ہے، یہ کونسی جمہوریت ہے۔ ایک منتخب حکومت کو گھر بھیجنے پر مجبور کیا جائے۔ اگر ماضی میں پاکستان تحریک انصاف نے یہ کیا ہے۔ حکومت ہٹانے کی تحریک چلائی ہے یا اپنے دور میں مظاہروں کی سیاست کی ہے تو آج سیاسی جماعتوں کی ٹیم وہی کچھ کر رہی ہے۔
اس کی کیا ضمانت ہے کہ اگر آنے والے دنوں میں پاکستان تحریک انصاف حکومت میں نہیں رہتی اور وہ اپوزیشن میں آ جاتی ہے تو جو بھی سیاسی جماعت یا سیاسی جماعتیں حکومت میں ہوں گی تو پاکستان تحریک انصاف یا اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں وہی کچھ نہیں کریں گی جو آج پاکستان مسلم لیگ نواز پاکستان پیپلزپارٹی جمیعت علماء اسلام اور دیگر سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں اس لئے ان تمام سیاسی جماعتوں کی عزت، وقار احترام اسی میں ہے کہ یہ سیاسی نظام کو عزت دیں۔ اس نظام کی بقا کے لیے ذاتی مفادات کو نظر انداز کریں۔ نظام کی حمایت میں ملک و قوم کی حمایت میں، ملک و قوم کے بہتر مفاد میں فیصلے کریں۔ اگر حکومت عوام کو سہولیات فراہم کرنے، عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو رہی ہے تو پھر پارلیمنٹ میں ملکی اور عوامی مسائل کو اجاگر کرنے، غلطیوں کی نشاندہی کرنے، مختلف ترقیاتی منصوبوں اور حکومت کے فیصلوں پر تعمیری بحث کریں۔ یہی روشن مستقبل کی نشانی ہے۔ اگر ہم تعمیری بحث کے بجائے ہر وقت الزامات کی سیاست میں لگے رہیں گے تو پھر وہی ہو گا جو اس وقت ہو رہا ہے۔ قوم کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔ حکومت کے حمایتی ایک بیان جاری کرتے ہیں اور اپوزیشن اس کے جواب میں دوسرا بیان جاری کرتی ہے۔ پھر حکومتی مورچوں سے فائرنگ ہوتی ہے تو اپوزیشن والے اس کا جواب دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک اور پھر رات کے اندھیروں سے اگلی صبح سورج کی کرنوں تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران ان اگر کچھ وقت بچ جائے آئے تو سب اپنے اپنے کاروبار کا حساب کرلیتے ہیں۔ ملک و قوم قوم کا نہ کسی کو فکر ہے ہے کسی کو غم ہے۔ اس لئے اگر یہ سیاسی جماعتیں عزت بچانا چاہتی ہیں تو نظام کو عزت دیں، ملک کو عزت دیں، قوم کو عزت دیں، قوم کے وقت کی قدر کریں، جسے جو عہدہ ملا ہے وہ اسے فرض سمجھ کر ادا کرے۔ یہ یاد رکھیں تمام اعمال درج ہو رہے ہیں۔ اگر اپنے عدالتی نظام سے خوف نہیں آتا، یا ہم اپنے قانون سے بچ نکلنے کی طقت رکھتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر جگہ دو نمبری چلا لیں گے۔ یہ تمام اعمال ایسی جگہ درج ہو رہے ہیں جہاں نہ کوئی سفارش کام آئے گی، نہ عہدہ اور مرتبہ نہ وہاں ہم اپنے اعمال سے مکر سکیں گے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ آج جو وقت میسر ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور دنیا و آخرت میں عزت کمائیں۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کہتے ہیں کہ "پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا ایجنڈا قومی احتساب بیورو کا خاتمہ ہے۔ پی ڈی ایم ہوائی فائرنگ کررہی ہے۔ انہوں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جو حکومت کے خاتمے کیلئے ہو۔ پیپلز پارٹی سندھ حکومت کو چھوڑے تو ہم سمجھیں گے وہ واقعی سنجیدہ ہے"۔ امیر جماعت اسلامی کا یہ کہنا کہ سارا کھیل نیب کے خاتمے کے لیے ہے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر سیاست دان پارلیمنٹ کے سائے میں میں یا اسکی آڑ اپنی وزارتوں اور دہائیوں سے قائم سیاسی عہدوں کی آڑ میں کرپشن کو بچانا چاہتے ہیں یا منی لانڈرنگ کو چھپانا چاہتے ہیں تو اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے۔ سیاست دان قوم کا چہرہ ہوتے ہیں، قوم کے مستقبل کے محافظ ہوتے ہیں قوم کے جوانوں کے امید کی کرن ہوتے ہیں۔ اگر وہ اقتدار میں آنے کے بعد ہر وقت مال بناتے رہے ہیں لوٹ مار کرتے رہے تو پھر عام آدمی دو وقت کی روٹی کو ترسے گا۔ اسے اپنا مستقبل تاریک نظر آئے گا۔ اسے ادویات ملیں گی نہ تعلیم ملے گی، نہ کبھی رہنے کو چھت ملے گی۔ نہ ہی کبھی سکون کا سانس میسر آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر طرف افراتفری ہے، بے چینی و بے سکونی ہے۔ ان حالات میں بہتری کی کی کوئی امید نظر نہیں آتی اور ملک کو اس حال تک پہنچانے والے جمہوریت کا جھنڈا اٹھائے میدان میں ہیں۔ قوم کے نوجوانوں کو خوار کر رہے ہیں۔ کرپشن سے ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والے خود بیرونی دنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں تو وہ قوم کے بچوں، جوانوں اور بزرگوں کی معصومیت کا فائدہ اٹھا کر انہیں ڈھال بناتے ہوئے اپنے گناہ چھپانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں شامل تمام سیاسی جماعتیں یاد رکھیں انہوں نے موقع ملنے پر ملک و قوم کی عزت کے لیے کچھ نہیں کیا اب اس کا بدلہ ان سے وقت ہی لے گا اور وقت بہت بیرحم ہے وہ کسی کو معاف نہیں کرتا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ بچی کھچی عزت کے ساتھ 2023 کے عام انتخابات کے وقت کا انتظار کریں۔ یہ بچی کھچی عزت بھی ان سیاسی جماعتوں میں عزت دار لوگوں کی وجہ سے ہے ورنہ قائدین نے ایسا کچھ قابل عزت یا قابل فخر کام نہیں کیا۔ بقول شاعر انقلاب، شاعر عوام حبیب جالب
رہزنوں نے جو رہزنی کی تھی
رہبروں نے بھی کیا کمی کی تھی