پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ حقیقی معنوں میں عوامی وزیر داخلہ ملا، کپتان عمران خان جن کی سیاست بھی کرکٹ سے ہوتی وہ اشارہ کے طور پر ’’کرکٹ‘‘ اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔آج جب پی ٹی آئی حکومت کی ٹیم دبائو اور پریشر کا شکار ہے ،مہنگائی ،بے روزگاری،کرونا وائرس ،خارجہ پالیسی ،ایران سعودی تعلقات ،15 جنوری کو امریکی صدر کا حلف،کشمیر افغانستان جیسے دیو قامت مسائل کے علاوہ پاکستان کی تاریخ میں مضبوط ترین اپوزیشن پی ڈی ایم کے نام پر عوامی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔اپوزیشن اسمبلی میں اور باہر مضبوط ہے،سینیٹ میں اکثریت ہے،سندھ میں اپوزیشن کی حکومت ہے،پنجاب میں مضبوط پارلیمانی پارٹی مسلم لیگ (ن)کی ہے۔لانگ مارچ ،دھرنے،استعفیٰ دینے کی باتوں میں وزیر داخلہ کا آنا خالصتاً صرف ’’سیاسی فیصلہ‘‘ہے۔ شیخ رشید احمدکی درینہ خواہش تھی کہ وزیر داخلہ بنیں ۔شیخ رشید شاید پہلے سیاسی ورکر ہیں جنھوں نے کم عمر قیدی کا اعزاز حاصل کیا اور ہری پور جیل کاٹی۔پیپلز پارٹی کے دور میں ایک جھوٹے مقدمے میں طویل قید کاٹی،رہائی پر راولپنڈی میں بڑا استقبال ہوا،شیخ رشید احمد خوبصورت شخصیت اور بہترین مقرر ہیں،کراچی سے خیبر اور ریاست جموں و کشمیر میں ان کے مداحوں کی بڑی تعداد ہے۔ذوالفقار علی بھٹو حکومت میں گورنر پنجاب مصطفیٰ کھر کے حکم پر آبپارہ تھانہ میں بند کیا گیا،شیخ رشید زمانہ طالب علمی میں جلسوں میں کہتے تھے کہ ’’جیل‘‘انکا سسرال ہے،کونسلر سے ایم پی اے ،ایم این اے اور وفاقی وزارت کا سفر بے شمار دفعہ طے کیا،پولیس کے کردار اور تکالیف سے بہت اچھی طرح واقف ہیں،شیخ رشید احمد جب مضبوط ترین وزارت کا حلف لے کر اپنے سیاسی مرکز ’’لال حویلی‘‘آئے تو ایک سفید پوش ’’ایک پائو‘‘مٹھائی لے کر آئے تو شیخ رشید کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو آگئے،یقیناشیخ رشید راولپنڈی کے چھابے والے،رکشا والے،ریڑھی والے،ڈینٹر ،پینٹر،ٹانگے والے کی مضبوط آواز ہیں۔بڑے فخر سے پسے ہوئے طبقات کو اپنی قوت کہتے ہیں۔زمینی حقائق کے مطابق سیاست کرتے ہیں،اپنے حلقے کے ایک ایک ووٹر کو ’’نام‘‘سے جانتے ہیں،’’لال حویلی‘‘پاکستان اور بیرون ملک سیاست برینڈ بن گیا ہے،اکثر صبح اپنے حلقے کے مسائل اسی لال حویلی میں سنتے ہیں،موقعے پر احکامات جاری کرتے ہیں۔ہمارے ایک دوست جو کہ کشمیری ہیں دوران تعلیم لاہور یونیورسٹی سے ٹیکسلا مائیگریشن کرانا چاہتے تھے،بغیر سفارش،تعلق،شناسائی،’’لال حویلی‘‘چلے گئے،1990 ء کی دہائی میں شیخ رشید نے لاہور یونیورسٹی کے وی سی کو فون کیا تو انھوں نے کہا کہ پالیسی نہیں ہے،ممکن نہیں ہے،اس دوست نے کہا کہ اسی سال اسی وی سی صاحب نے بے شمار ایسے کیس کئے،شیخ رشید نے ریڈائل کیا اور وی سی صاحب کو کہا کہ فلاں فلاں کیس آپ نے کئے تو یہ بھی کریں،ورنہ آپ کا ٹرانسفر ہوگا،طالب علم دوست کا کام ہو گیا،وقت گزر گیا وہی طالب علم سی ایس ایس کر کے مشرف کے دور میں وزیر داخلہ کے پی ایس او لگ گئے،شیخ رشید ایم این اے بھی نہ تھے س،اچانک شیخ رشید اور اسی دوست کا ائیر پورٹ پر آمنا سامنا ہوا تو یاد دلایا کہ آپ کا احسان تھا کہ آپ کے کہنے پر میری مائیگریشن لاہور سے ٹیکسلا ہوئی تھی،شیخ رشید احمد کو یاد بھی نہ تھا بہرحال پی ایس او نے کہا کہ کوئی حکم ہو تو بتائیں،شیخ رشید احمد نے ڈھوک حسو کے عوامی مسائل کے لئے کچھ کام کہے۔ذاتی کام نہیں کہا۔شیخ رشید ہمیشہ فرنٹ فٹ پر کھیلتے اور ویل انفارم شخص ہیں،اکثر پیشنگوئی سچ ثابت ہوتی ہے،میڈیا کے لئے ہمیشہ ہارڈ فیورٹ شخصیت رہے ،سیاسی اجتماعات ان کی تقریر کے بغیر مکمل نہیں ہوتے،پارلیمنٹ میں ان کی نوک جھوک سے ہمیشہ اپنے اور اور مخالفین پریشان رہے،اپنے ذومعنی جملوں سے قید و بند کی تکالیف دیکھی ،راولپنڈی میں ان کے مقابل ہمیشہ مخالفین ہیوی ویٹ امیدوار لے کر آئے مگر ہر الیکشن پہلا الیکشن سمجھ کر گھر گھر ،در در،دوکان محلے اور باورچی خانہ تک رسائی حاصل کرتے،راولپنڈی کے ناظم یونین کونسل مخالف تھے جو کہ پہلے حامی تھے،صبح صبح ان کے گھر آئے ناظم صاحب سمجھے کہ ان کو ملنے آئے تو کہا کہ والدہ سے ملنا ہے۔ناظم کی والدہ کو کیا کہ اگرناظم آپ کا بیٹا ہے تو میں کون ہوں؟،ناظم کی والدہ نے کہا تم بھی میرے بیٹے ہو تو کہا کہ پھر میری کیوں مخالفت کرتے ہو،والدہ نے دونوں میں راضی نامہ کرا دیا۔وزیر داخلہ بنتے ہی اسلام آباد میں غیر ضروری ’’ناکوں‘‘کے خاتمے کا حکم جاری کیا۔’’ایف آئی اے‘‘میں سائبر کرائم اور دیگر شعبوں میں دو ہزار نئی بھرتیوں کا اعلان کیا،تمام تھانوں میں صفائی ستھرائی کے احکامات جاری کر دیے۔شیخ رشید عوامی نمائندے ہیں،وزیر اعظم عمران خان کے قریب سمجھے جاتے ہیں،بلکہ اگر کہا جائے کہ پی ٹی آئی میں نہ ہوتے ہوئے عمران خان کے لاڈلے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ دنوں ایک تقریب میں کہا کہ میں نے 22 سال پہلے شیخ رشید کو دیکھا تھا آج بھی ویسے ہی ہیں۔ناجانے یہ کس حوالے سے کہا تھا؟،شیخ رشید سوال و جواب میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔بقول اقبالؒ
’’نالے بلبل کے سنوںاور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا ! میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں ‘‘
شیخ رشید کو فن خطابت کا بادشاہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا،قابل قدر شخصیت ہیں،عطا ء اللہ شاہ بخاری اور شورش کشمیری کے فن خطابت کے قدردان اور راہنمائی لیتے ہیں۔
نگاہ بلند سخن دلنوا،جاں پر سوز
یہی ہے رخت ِ سفر میرکارواں کے لئے
شیخ رشید بطور وزیر داخلہ کم از کم کچھ اتنا ضرور کریں کہ آپ کے جانے کے بعد لوگ آپ کو یاد کریں۔بانی پاکستان جو ہر پاکستانی کے آئیڈیل ہیں،پوری زندگی وقت کی پابندی کی،پوری زندگی قانون کا احترام کیا،پوری زندگی اقراء پروری نہ کی،پوری زندگی نہ رشوت لی اور نہ دی،وعدے کی پاسداری ،ٹیکس چوری نہ کی،نہ کسی کا حق مارا،بداخلاقی نہ کی،آج صرف راولپنڈی اور اسلام آباد کے تھانوں کا ماحول بہتر ہو جائے ،انصاف میسر ہو،موٹروے پولیس کی طرح مقامی پولیس ایک آئیڈیل پولیس بن جائے۔’’پولیس کا فرض مددآپ کی‘‘سلوگن عملاً نظر آئے ،عوام دوست پولیس ہونے کا تصور قائم ہو،اسلام آباد پولیس بہترین پولیس ہے ۔پورے پاکستان میں پولیس ہیلپ لائن ’’15 ‘‘ حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہے،پولیس ملازمین نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے،اسلام آباد کے امن و امان کے لئے کم از کم اسلام آباد کے ان چوکوں اور سڑکوں کو ان ’’شہداء پولیس‘‘کے نام نے منسوب کیا جائے،’’سی ڈی اے‘‘اور کمشنر آئی سی ٹی ان شہداء کی یادگار تعمیر کرائیں،پولیس ملازمین کے لئے پلاٹ ،رہائش ،تعلیم اور صحت ضروری ہونا چاہئے،پولیس تھانوں میں مصالحتی کمیٹیوں کو بہتر اور فعال کیا جائے،سیٹزن کمیٹیاں بنائی جائیں،تھانوں میں ہر سائل کو عزت دی اور احترام دیا جائے،پولیس میں آن لائن کمپلینٹ سسٹم فعال کیا جائے،پولیس سیٹزن پورٹل قائم کیا جائے،فوری احکامات ،فوری دادرسی ہونی چاہئے۔