کبھی مایوس مت ہو ناامیدوں کے سمندر میں

آج 22فروری 1974ء کی یاد تقریباً 41سال کے بعد تازہ ہو گئی جب قومی لیڈر جناب ذوالفقار علی بھٹونے اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دنیا کے نقشے پر منفرد کر دیا ۔ جب 37اسلامی ممالک کے سربراہان جلوہ افروز ہوئے کیا خوبصورت لمحات تھے جب کہیں سعودی فرمانروا جناب شاہ فیصل کا چمکتا ہوا چہرہ نظر آ رہا تھا۔ لیبیا کے صدر معمر قذافی کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے صدر جناب شیخ زید بن سلطان النہیان اور الجزائر کے صدر کے ساتھ شام کے صدر اور دیکھیں فلسطین کے صدر یاسر عرفات بھی کتنے خوش نظر آرہے تھے کیوں کہ اسی کانفرنس میں تنظیم آزادی فلسطین کو نمائندہ تنظیم تسلیم کیا گیا۔اسی کانفرنس میں عالم اسلام کے ذمہ داران نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو OICکا چئیر مین منتخب کیا جو تاحیات اس عہدے پر قائم رہے۔ یہ پاکستان کیلئے ایک بہت بڑا اعزاز تھا کیونکہ اس سے پہلے پاکستان میں اتنے مسلم امہ کے رہنمااکٹھے نہیں ہوئے تھے۔اس اجلاس کی افتتاحی تقریب میں جناب ذوالفقار علی بھٹو نے مسلم امہ کے سامنے عہد کیا تھا کہ ہم فون کا آخری قطرہ بھی عالم اسلام کیلئے بہا دینگے اور بالآخر انھوں نے یہ وعدہ پورا کر دکھایا۔اس وقت بھی بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ اسلام کو بہت سے چیلجنز کا سامنا ہے اور اب وہی چیلجز سر چڑھ کر بول رہے ہیں ۔آج اسلام آباد میں کونسل آف فارن منسٹرز کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کے اندر سے جیسے عالم اسلام کا لیڈر بول رہا تھا ۔ ایسے لگ رہا تھا کہ اب اقوام عالم کے فیصلے پُر امن پاکستان میں ہونے جا رہے ہیں۔ آج پاکستان کو Isolationمیں ڈالنے کے خواب دیکھنے والوں کے خواب چکنا چور ہو گئے ہیں۔ آج خوبصورت پاکستان کے خوبصورت کیپٹل کو عالم اسلام کے جھنڈوں سے سجادیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ ہائوس کی خوبصورتی دیدنی ہے اور اس کانفرنس کو چار چاند سعودی وزیر خارجہ نے لگا دیے جب انھوں نے افغان بھائیوں کی بات کی اور افغانستان کی بہنوں ، بیٹیوں اور بچوں کیلئے ایک ارب ریال کا اعلان کیا اور دنیا کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ مجھے یقین ہے کہ افغانی بہنوں اور بچوں کی دعائیں سعودی عرب کی نظر اُتاریں گی۔ آج ایک طاقتور آواز پاکستان سے اُٹھی ہے جس نے عالم اسلام کی سوچ کو دنیا میں پھیلا دیا ہے آج افغانستان کے وزیر خارجہ کی آنکھوںکی چمک بتا رہی تھی کہ جیسے وہ آج ہی جنگ جیتے ہوں آج ایک طاقتور آواز دنیا کے منصفوں کو کہہ رہی تھی کہ اب افغانستان کیساتھ مذاق بند ہونا چاہیے۔ افغانستان میں سرمائے کی نقل و حرکت کیلئے نظام بنانا پڑیگا۔ وزیر اعظم نے افغانستان کے اندر لوٹ مار کا بھی ذکر کیا اور آخر کار یہ کہہ ہی دیا کہ افغانستان کی مدد کرنا ہمارا مذہبی فریضہ ہے اور وزیر اعظم نے ایک مرتبہ دنیا کی توجہ اس طرف بھی مبذول کروائی کہ افغان جنگ کا سب سے بڑا نقصان پاکستان کو ہوا ہے اور بہت سے شوقینوں نے کھربوں کا بارود افغانستان میں چلا کر اپنا شوق پورا کیا ہے اور سب سے زیادہ قیمت ہم نے ہزاروں قربانیوں کی شکل میں اور کبھی 30لاکھ افغانی مہاجرین کو گلے لگا کر دی ہے۔ وزیر اعظم نے ایک بار پھر تجدید عہد کیا کہ اسلام مخالف پراپیگنڈے کے تدارک کیلئے بھی کام کرنا پڑیگا اور افغانستان کو ایک انسانی المیے سے بچانا ہوگا۔ جناب وزیر اعظم نے ایک بار پھر دہرایا کہ اسلامو فوبیا کیخلاف پورے عالم اسلام کو اکٹھے ہونا پڑیگا۔ آج جناب وزیر اعظم عمران خان نے عالم اسلام کے درمیان Commuincation Gap کو ختم کر دیا ہے ایسے لگ رہا تھا جیسے وزیر اعظم پاکستان کے اندر سے امت مسلمہ کا لیڈر بول رہا ہو۔ میں نے تقریبا ً دو سال بحیثیت ٹورازم چیف پاکستان کام کیا ہے میری بہت خواہش تھی کہ میں ٹورازم کے حوالے سے او آئی سی کانفرنس کروں۔ میں نے اس کیلئے اپنے ایک بہترین دوست جناب طارق پرویز صاحب سے ملاقات کی جو ان دنوں وزارت خارجہ میں ڈائریکٹر او آئی سی طور پر کام کر رہے تھے۔ میں اس پر کافی کام کر چکا تھا مگر مجھے وقت نے اجازت نہ دی اسکے ساتھ ہی UNWTOکی ورلڈ کانفرنس بھی پاکستان میں ہونے جا رہی تھی میرے سب کیے دھرے پر پانی پھر گیا۔ 
آج اسلام آباد کی کانفرنس نے میری تشنگی ختم کر دی ۔ مجھے یقین تھا کہ بات افغانستان سے آگے نکل جائے گی اس سے پہلے میں سوچتا تھا کہ :
شہر گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے 
جس کا وارث ہوں اس خاک سے خوف آتا ہے 
مگر آج کی کانفرنس امید کی کرن ہے ایک نئی صبح طلوع ہو رہی کر رہے گی اور افغانستان کے تقریباً 32 لاکھ بچے قحط کا شکار ہو نے سے بچ جائیں گے۔ اس کانفرنس میں امریکی نمائندگان کے ساتھ چائنہ ، روس وغیرہ کے نمائندگان کا ہو نا غیر معمولی حیثیت کا حامل ہے۔پاکستان بہر حال دنیا میں امن کیلئے اپنا رول ادا کر رہا ہے۔
کبھی مایوس مت ہونا امیدوں کے سمندر میں 
طلاطم آتے رہتے ہیں سفینے ڈوبتے بھی ہیں

ای پیپر دی نیشن