رانا شمیم نے کہا پوری اسلام آباد ہا ئیکورٹ کسی کے حکم پر چلتی ، یہ میرا احتساب ہے : جسٹس اطہر

اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت میں زیر سماعت سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیان حلفی سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں رانا شمیم کا بیان حلفی لندن سے عدالت کو موصول ہو گیا۔ اٹارنی جنرل کی عدم موجودگی کے باعث سماعت ملتوی کردی گئی۔ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہاکہ اس کیس میں فریقین کے جواب دیکھنے کے بعد میں نے بریف جمع کرا دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ لندن سے آیا کورئیر سر بمہر رکھا ہوا ہے اگر آپ چاہیں تو ابھی کھول سکتے ہیں۔ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے کہاکہ میں اسی پر قائم ہوں کہ میرا بیان حلفی سر بمہر تھا۔  ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ اٹارنی جنرل کراچی میں کچھ علاج کے لیے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے وکیل صفائی سے کہاکہ آپ کے کلائنٹ مانتے ہیں کہ اخبار میں جو چھپا ہے وہ ان کے بیان حلفی کے مطابق ہے، عدالت کو تنقید سے گھبراہٹ بالکل نہیں ہے، تین سال بعد ایک بیان حلفی دے کر اس کورٹ کی ساکھ پر سوال اٹھایا گیا، عدالت چاہتی ہے کہ آپ اپنا سربمہر لفافہ خود کھول لیں۔ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے کہاکہ پھر ایک نئی انکوائری شروع ہو جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے کلائنٹ نے یہ تاثر دیا کہ ہائیکورٹ کمپرومائزڈ ہے۔ وکیل نے کہاکہ رانا شمیم نے کہا ہے کہ انہوں نے بیان حلفی کسی کو اشاعت کے لیے نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا اس کورٹ کے کسی جج پر کوئی انگلی اٹھائی جا سکتی ہے؟۔ وکیل رانا شمیم نے کہاکہ میں نے کب اس کورٹ پر کوئی انگلی اٹھائی ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت صحافی سے اس کا سورس نہیں پوچھے گی۔ رانا شمیم نے یہ بھی تاثر دیا کہ استحقاقی دستاویز نوٹری پبلک سے لیک ہوا ہو گا، اگر ایسا ہے تو کیا برطانیہ میں ان کے خلاف کوئی کارروائی شروع کی گئی؟، چیف جسٹس نے کہاکہ اظہار رائے کی آزادی کی بہت اہمیت ہے، جہاں بنیادی حقوق متاثر ہوں وہاں اظہار رائے کی آزادی پر استثنا ختم ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اٹارنی جنرل صاحب کو صحت دے، جو باکس اسلام آباد ہائیکورٹ کو موصول ہوا ہے اس کو مزید سیل کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے لطیف آفریدی سے کہاکہ اٹارنی جنرل کی موجودگی میں اگر اسے کھولنا ہے یا ابھی کھولنا ہے آپ بتائیے، اس بیانی حلفی کو ہم نے مزید سیل کیا، وہ ہم آپ کے حوالے کرتے ہیں۔ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے کہاکہ میں نے دیکھ لیا کہ باکس 100 فیصد ہی سیلڈ ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس عدالت کو تنقید سے کوئی گھبراہٹ نہیں، تنقید ضرور کریں، تین سال بعد ایک بیان حلفی دی گئی جس سے عدالت کو نشانہ بنایا گیا، اخبار کی اشاعت سے ایک سینئر جج کو نشانہ بنایا گیا، آپکو موقع دیتے ہیں آپ عدالت کو مطمئن کریں، اگر عدالت مطمئن ہوئی تو کیس واپس لیں گے۔ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے کہاکہ میں نے پہلے بھی کہا تھا اور ابھی بھی کہا کہ بیان حلفی نہ میں نے میڈیا کو دیا اور نہ ہی کسی اور کو، عدالت نے کہاکہ اسی وجہ سے عدالت کہتی ہے کہ اپنا سیلڈ لفافہ آپ خود ہی کھول دیں، یہ اوپن انکوائری ہے، آپ کے موکل نے ایک بہت بڑی بات کی ہے، اس نے کہا کہ سارے ججز یا پورا اسلام آباد ہائی کورٹ کسی کے حکم پر چلتا ہے، آپ سمجھیں یہ توہین عدالت کی کارروائی نہیں، یہ میرا احتساب ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ اس ہائیکورٹ یا یہاں کے کسی جج پر کوئی انگلی اٹھائے چیلنج کرتا ہوں۔ لطیف آفریدی نے کہاکہ میں نے کب کہا کہ ججز کسی کے اشارے پر چلتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ انگلی اٹھانے والے ریمارکس میڈیا میں جاتے ہیں جو کہ ایک غلط ایمپریشن دیتا ہے، اگر پبلک نوٹری سے لیک ہوگئی بیان حلفی تو برطانیہ میں کیس کیا جاتا ہے، عدالت نے اس کیس میں آپ کو عدالتی معاون مقرر کیا ہے، اگر کہے گئے الفاظ میں تھوڑی سے سچائی ہے تو ثبوت پیش کیا جائے، عوام کا ان عدالتوں پر اعتماد بحال ہے اور بحال رکھا جائے گا،یہ عدالت قانون سے ادھر ادھر نہیں جائے گی،دوران سماعت سینئر صحافی ناصر زیدی کا بھی تحریری جواب عدالت میں جمع کرادیا، چیف جسٹس نے کہاکہ ایک غلط رپورٹنگ سے متعلق درخواست بھی آئی ہے، یہ عدالت اظہار رائے کی سب سے بڑی حامی ہے اور اظہار رائے پر یقین رکھتی ہے، آپ یورپین کورٹ آف جسٹس کے فیصلے بھی دیکھ لیں کہ وہاں اظہار رائے کے حوالے سے کیا کہا گیا، دوران سماعت ناصر زیدی کا سابق وزیراعظم جونیجو کے حکومت گرانے سے متعلق کیس کا حوالہ دیا، چیف جسٹس نے کہاکہ دوبارہ کہہ رہا ہوں کہ یہ توہین عدالت کا کیس نہیں ہے، ایک خبر سے عوام کو یہ رائے دی گئی کہ ججز اپنے فیصلے خود نہیں کرسکتے، آپ کہہ دیں کہ ہمیں آزادی ہے کہ ہمیں کوئی کچھ بھی کہیں اور ہم چھاپ دیں گے، میں نے بار بار کہا کہ وکیل سے عدالت کا کبھی کچھ چھپا ہی نہیں، یہ عدالت توہین عدالت پر یقین نہیں رکھتی، مگر ایک نرٹیو بنایا گیا، اگر کوئی خبر دے کہ اور عوام کی رائے یہ بنادے کہ عدالتیں اور ججز کمپرومائزڈ ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ میں نے ہمیشہ کہا کہ کورٹ رپورٹرز نے ہمیشہ پروفیشنلزم سے کام کیا ہے، یہ معاملہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے حوالے سے نہیں، یہ کھلی انکوائری ہے اس کیس میں اس عدالت کو نشانہ بنایا گیا۔ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے کہاکہ اس کیس کو سردیوں کے چھٹیوں کے بعد رکھا جائے۔ عدالت نے کہاکہ اس عدالت نے گزشتہ سال بھی گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیاں نہیں کیں، اس کیس کو آرٹیکل 19 اور آرٹیکل 19 اے سے آگے نہیں جائیں گے، عدالت نے معاون ریما عمر سے کہاکہ اگر میں یہاں اوپن مائنڈ کے ساتھ بیٹھا ہوں تو آپ بھی اوپن مائنڈ کے ساتھ رہیں، اس سے زیادہ یہ عدالت  کچھ کرسکتی تھی کہ آپ کو عدالتی معاون مقرر کیا، چیف جسٹس نے کہاکہ عدالتوں کا پرابلم یہ ہے کہ ججز پریس کانفرنسز نہیں کر سکتے، پریس ریلیز نہیں دے سکتے۔ بعدازاں سماعت 28 دسمبر تک کے لئے ملتوی کر دی گئی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...