اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے مسنگ پرسنز کیسز کے عدالتی فیصلوں کے خلاف وفاق کی انٹراکورٹ اپیل پر حکومت کو معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے رکھنے کی ہدایت کردی۔ لاپتہ شہری عمر عبداللہ، ساجد محمود اور دیگر کی بازیابی کیس میں انٹراکورٹ اپیل کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ ہم نے پروڈکشن آرڈر مانگے تھے وہ کہاں ہیں؟، ہمیں اس چیز سے کوئی مطلب نہیں کہ کمشن کیسے کام کر رہا ہے، آپ نے جو رپورٹ دی اس میں تو کمشن کی تعریفیں کی گئی ہیں جس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ وہ صرف کورٹ کی انڈرسٹینڈنگ کے لیے بتایا کہ کمشن کیسے کام کرتا ہے۔ اس موقع پر پروڈکشن آرڈر عدالت پیش کیا گیا جس میں کہا گیا کہ لاپتہ غلام قادر سیکرٹ اسٹیبلشمنٹ کی تحویل میں ہو سکتا ہے، کمیشن کے سامنے پیش کیا جائے، 6 ماہ میں پیش نہ کیا گیا تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ یہ بتائیں کہ کمیشن پروڈکشن آرڈر پر عمل درآمد کیسے کراتا ہے؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسارکیاکہ نظرثانی درخواست کس کے کہنے پر فائل کی گئی؟، وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرائے، لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے تمام ایجنسیوں کو موبالائز کرے، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ وفاقی حکومت کے علم میں آ گیا کہ کچھ لوگ لاپتہ ہیں تو انہوں نے کیا کیا؟،آپ چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ بس عدالتوں میں چلتا رہے، آپ لاپتہ افراد کی عدم بایابی پر عائد جرمانوں کے خلاف آئے تھے، بتائیں اس میں کیا خرابی ہے؟، اگر کوئی شخص گمشدہ ہے تو اسے ڈھونڈنا کس کی ذمہ دادی ہے؟، کیا لاپتہ افراد کو ڈھونڈنا حکومت کی ذمہ داری نہیں؟ پانچ چھ سال گزرنے کو آ گئے ہیں، انصاف میں تاخیر انصاف کا قتل ہے، آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ لاپتہ لوگ بارڈر کراس کر کے افغانستان چلے گئے تھے، اگر کوئی غیر قانونی طور پر بارڈر کراس کر گیا تو وہ بھی آپ کی ذمہ داری ہے، یا تو آپ کابینہ سے منظوری لے لیں کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ لاپتہ افراد کو نہ ڈھونڈا جائے، اور تو ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے، جبری گمشدگیوں کا کمیشن آپ نے بنایا، اس نے پروڈکشن آرڈر جاری کیا جس پر آپ نے عمل نہیں کیا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ میں تو عدالت سے استدعا ہی کر سکتا ہوں، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ یہ کوئی رحم کی اپیل نہیں ہے، آپ قانونی نکات پر بات کریں،آپ جرمانوں کے خلاف آئے ہیں، اس پر کیس لا پیش کر دیں،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ سنگل بنچ نے دور حاضر کے مطابق حقیقت پر مبنی جرمانہ عائد کیا، جسٹس عامر فاروق نے استفسارکیا کہ ایک شخص لاپتہ ہو جاتا ہے تو اسکو ڈھونڈنا ریاست کا کام ہے یا نہیں، کیا ملکہ برطانیہ کے خلاف رٹ جاری کر دیں یا امریکہ کے صدر کو نوٹس کر دیں، بالآخر یہ ریاست کی ہی ذمہ داری ہے کہ پاپتہ شخص کوڈھونڈیں، جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ وفاق کیا چاہتا ہے کہ اپیلیں منظور کر کے درخواستیں خارج کر دیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ جی، ہم یہی چاہتے ہیں،جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ یہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھیں کہ کابینہ اسکو منظور کر لے،کابینہ اگر کہتی ہے کہ ان لاپتہ لوگوں کو نہیں ڈھونڈنا تو رٹ خارج کر دیتے ہیں،ریاست پر ہم نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ذمہ داری جرمانے کے ذریعے ہی ڈالنی ہے،پانچ چھ سال گزرنے کو آ گئے ہیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی کا نمائندہ موجود ہے جو کہتی ہے کہ یہ جبری گمشدگیوں کا کیس ہے، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ ہم آرڈر کریں گے کہ یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا جائے،اس حوالے سے مناسب حکم جاری کریں گے، عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ سماعت جنوری تک کیلئے ملتوی کر دی۔