حال ہی میں بابا کرمو نے لاہور سے اسلام آباد کا سفر پرائیویٹ ٹیکسی سے کیا ۔بتایا کہ ٹیکسی میں سوار ہوتے ہی طے شدہ رقم اس کے حوالے کی۔ جواب میں اس نے اپنا ٹیکسی کارڈ مجھے دیا اور کہا سر اگر کبھی ٹیکسی کی ضرورت پڑے و تو مجھے کال کر لینا ۔ اس کے ساتھ ہی وہ موٹروے کی طرف چل پڑا۔میں نے اسلام آباد میں گھر والوں کو فون کیا کہ میں ٹیکسی میں بیٹھ چکا ہوں اور چار گھنٹے کے بعد آپ کے پاس ہونگا ۔ یہ کہہ کرخدا حافظ کیا اور فون بند کر دیا ۔ اس کے بعد اس کا دیا گیا کارڈ پڑھا ، کارڈ پر لکھا تھا ۔ ڈاکٹر الطاف حسین ( پی ایچ ڈی)۔ یہ پڑھ کر حیران ہوا اور خوش ہوا کہ اتنے پڑھے لکھے ڈرائیور کے ساتھ سفر کر رہا ہوں ۔ پوچھا اتنی اعلی تعلیم کے باوجود تم ٹیکسی کیوں چلا رہے ہو ،مسکرا تے ہوئے کہا سر ہماری کمپنی کی پالیسی ہے کہ اپنے مسافرسے سچ بولنا تو سر سچ یہ ہے کہ D R سے مراد ڈرائیور ہے پی ایچ ڈی سے مراد ہے پرائیوٹ ہائرڈ ڈرائیور! پوچھا یہ کارڈ پر لکھنے کی ضرورت پیش کیوںآئی ؟ کہا سر ہماری کمپنی کے ہر ڈرائیور کے کارڈ پر یہی لکھا ہوتا ہے یہ مارکیٹنگ کا حصہ ہے۔اس کے لکھے جانے کا فائدہ یہ ہے کہ بعض مسافریہ پڑھ کر ہم سے بغیر پوچھے، یا ہم پر ترس کھا کر یا شرمندگی سے ہمیں کرایہ سے یہ زیادہ پیسے دے جاتے ہیں ۔ باباکرمو نے بتایا کہ اس کے بعدگپ شپ کا سلسہ اسلام آباد تک جاری رہا ۔ پوچھا مہنگائی کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ کہا سر مہنگائی ہر دور میں ہوتی ہے اسے روکا نہیں جا سکتا ۔ چیزوں کی قیمتیں کم نہیں زیادہ رہتی ہیں ۔ اس بار مہنگائی کا شور اس لئے زیادہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پریشر سے مہنگائی میں یک دم بہت زیادہ اضافہ کیا ہے ۔اگر نارمل طریقے سے مہنگائی
کرتے تو ایسا شور نہ اٹھتا ۔ میرے بزرگ کہا کرتے تھے کہ مہنگائی کی وجہ سے پریشان نہیں ہونا ۔بلکہ آپ نے اپنی آمدن کے متعلق سوچنا کہ اس میں مزید اضافہ کیسے کروں ۔ کہا سر میں اس سے پہلے رکشہ چلاتا تھا ۔جب اس کے چلانے سے گزارا نہیں ہوا تو ٹیکسی چلانا شروع کر دی ۔ مہنگائی محسوس کی تو اپنی ٹیکسی قسطوں پر لے لی ۔ اب بارہ گھنٹے میں خود چلاتا ہوں اور بارہ گھنٹے کا ڈرائیور رکھا ہوا ہے ۔ اپنی کمائی سے گھر چلتا ہے اور ڈرائیور کی انکم سے ٹیکسی کی قسط سے اور ٹیکسی کی مرمت اور تھوڑی بچت کر لیتا ہوں ۔ مہنگائی کا رونا رو کر وقت ضائع نہیں کرتا ہوں ۔بلکہ مہنگائی سے مقابلہ کرتا ہوں۔ میں نے تین جگہوں پہ انوسٹمنٹ بھی کر رکھی ہے ۔ پوچھا کہاں کہاں ؟ کہا سر گھر میں ہی تین بچوں پر انوسٹمنٹ کر رکھی ہے۔ بڑا بیٹا میڈیکل کالج میں ہے دو بچے انگلش میڈیم سکولوں میں اے اور او لیول میں ہیں ۔ سب بچے سکالر شپ پہ ہیں ۔ بیوی کیری ڈبہ سے اپنے اور دوسرے بچوں کو سکول لے جاتی ہے اور لے آتی ہے ۔ اس کی باتیں سن کرمجھے یہ ٹیکسی ڈرائیور نہیں ایک سمجھدار اور خوش قسمت انسان بھی دکھائی دیا ۔ پوچھاکس سیاسی جماعت کو ووٹ دیتے ہو ۔ کہا سر میری فیملی میرے سمیت الیکشن میں ووٹ ڈالنے نہیں جاتی ۔پوچھا کیوں ؟ کہا سر جب سے ہوش سنبھالی ہے سنتے آیا ہوں یہ ووٹ سے نہیں دھاندلی سے اقتدار میں آتے ہیں ۔لہذامیں اپنا وقت ووٹ ڈالنے پہ کیوں ضائع کروں ؟کہا سر اگر کوئی ہماری آپ کی ووٹ سے آتاہی نہیں ہے تو پھر ایسا حکمران عوام کو جواب دہ کیسے ہوا ۔یہ ہمارے دکھ درد بے روزگاری ، مہنگائی کی اسے کیوں کر پرواہ ہو گی ۔یہ تو ان کا خیال کرے گا جو اسے اقتدار میں لائے ہیں ۔ کہا ان کو بھی تو اقتدار میں کوئی لاتا ہو گا جو لاتا ہوگا وہ اپنی مرضی کے کام پھر ان سے لیتا بھی ہو گا ۔سر ہمارے بہت سے حکمران عوام کی ووٹ سے اقتدار میں نہیں آتے رہے ۔ان میں ایوب خان ، ضیاالحق اور پرویز مشرف اقتدار میں رہ چکے ہیں ۔جبکہ آئین اور قانون انہیں اقتدار میں آنے کی اجازت نہیں دیتا مگر پھر بھی یہ لمبے عرصے تک اقتدار میں رہے ۔ آپ نے برا نہیں منانا۔ ہمارے حکمران وزرا اداروں کے سربراہان بڑی بڑی تنخواہیں عوام کے خون پسینے کی کمائی سے لیتے ہیں اور کام اور حکم غیروں کے مانتے ہیں۔سر اسلام آباس میں او آ سی کانفرنس ہو رہی ہے مگر کشمیر کا کئی ذکرنہیں ۔کوئی بات نہیں۔سب کے لب سلے ہوئے ہیں۔سرلگتا ہے ان کے بڑوں نے انہیں کشمیر کے مسئلے پر خاموش رہنے کو کہہ رکھا ہے ۔ میں نے کہا چھوڑوں ان باتوں کو۔ ملک تو پھر بھی چل رہا ہے ۔ کہا نہیں ملک چل نہیں رہا ۔اگر چل رہا ہوتا تو عدالتی نظام پر انگلیاں نہ اٹھتیں۔ جہاں انصاف لوگوں کو نہیں ملتا پھر وہاں ملک چلا نہیں کرتے ۔ شائد ان حالات کے پیش نظر بھنگ کی کاشت پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ جلد ہی ہر چیز میں بھنگ ملی اشیا یہاں دستیاب ہونگی ۔جیسے بھنگ کے لڈو ،پکوڑے ، بھنگ کا پیزا ، بھنگ کا جوس ، بھنگ کا قہوہ ، ، بھنگ کاقیمہ ،بھنگ کے نان ،بھنگ کی دنبہ کڑائی ۔ سر سنا ہے بھنگ سب سے گھٹیا نشہ ہے۔ میرا عزیزبھنگ کے نشے کا عادی تھا ۔ ایک رو ز علاج کیلئے ماہر نفسیات کے پاس گیا ۔انہیںبتایا کہ مجھے یوںلگتا ہے جیسے میں احسا س کمتری کا شکار ہوں ۔ مجھے اپنا آپ گھٹیا لگتا ہے۔ ماہر نفسیات نے دو تین گھنٹے اس کے خیالات سنے اور اس کے نظریات پر کھل کر بات کی۔ اس کے بعد ماہر نفسیات نے اس کے کندھوں پہ ہاتھ رکھ کر کہا ، بات یہ ہے بھائی ،تمہیں کوئی احساس کمتری نہیں ہے بلکہ تم ہو ہی گھٹیا انسان ۔اس لئے کہ تم بھنگ کا گھٹیا نشہ کرتے ہو ۔ کہا آپ کی منزل آ گئی ہے، ٹیکسی روکی ۔ اترا ، ٹپ دی کہ سفر اچھا گزرا ۔