بلقیس بانو کی پٹیشن پر فیصلہ، بھارتی عدالتی نظام پر اعتماد ختم ہو گیا: سول سوسائٹی 


نئی دہلی (اے پی پی) سول سوسائٹی، قانونی ماہرین، خواتین کارکنوں اور متعدد مسلم رہنماﺅں نے بلقیس بانو کیس کے حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ کے17 دسمبر کو گجرات فسادات کی شکار بانو کی طرف سے دائر نظرثانی کی عرضی کو مسترد کرنے کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اجتماعی عصمت دری کی متاثرہ بلقیس بانو نے سپریم کورٹ سے گجرات حکومت کے فیصلے جس میں گیارہ مجرموں کی سزاﺅں میں کمی کی گئی تھی، کی نظر ثانی کی درخواست کی تھی۔ بھارت میں انصاف کے نظام نے مسلمانوں کو بار بار احساس محرومی، دھوکہ دہی اور مایوسی سے دو چار کیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لینے والے مرزا وردہ بیگ نے کہا ہے کہ عصمت دری انسانیت کے خلاف بھیانک جرائم ہیں۔ ایک سماجی کارکن آصف مجتبیٰ نے کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے نہ صرف بلقیس بانو کی طرف سے دائر درخواست کو بلکہ اس ملک کی مسلم اقلیت کی امنگوں کو بھی کچل دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی سپریم کورٹ کی رہی سہی ساکھ پر سوالیہ نشان بن چکے۔ "اس ناانصافی کے خلاف لڑنے والے طلباءرہنما برسوں سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں لیکن عصمت دری کرنے والے اور قاتل آزاد گھوم رہے ہیں۔ سٹوڈنٹس یونین کی صدر ندا پروین جے اے نے ''بھارت میں مسلمانوں کو ریاست کی طرف سے کسی قسم کے تحفظ کی ضمانت نہیں ہے۔ دہلی کمیشن برائے خواتین کی سربراہ سواتی مالیوال نے اسے ٹوئٹر پر لیا اور پوچھا: "جب لوگوں کو سپریم کورٹ سے انصاف نہیں ملتا تو وہ کہاں جائیں"۔ ٹوئٹر پر اپنی شناخت ایک سیاسی مبصر کے طور پر بتانے والے ایک ٹوئٹر صارف ہارون خان نے لکھا، یہ صرف بلقیس بانو کے لیے ہی نہیں بلکہ ملک کی ہر اس خاتون کے لیے دھچکا ہے جو آج انصاف کی تلاش میں ہے۔
بلقیس بانو 

ای پیپر دی نیشن