کھول آنکھ ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ فضا دیکھ اور موسم کا حال بتا۔ ارے میں کیا بتائوں، تم خود نہیں دیکھ سکتے موسم کیسا ہے۔ آندھی ہے، طوفان ہے، سیلاب اور زلزلہ ہے اوپر سے بادسموم بھی چل رہی ہے، اب بھی کچھ دیکھنے چھونے سونگھنے کی ضرورت ہے۔ ادھر شمال مغرب میں دہشت گردی کا ازالہ آیا ہوا ہے۔ کیاں بنوں کیا کوہاٹ، کیا کرم ، کیا وانا۔ لوگ شہید ہو رہے ہیں، اغوا ہو رہے ہیں، بھتے وصولی کا سونامی ہے اور پختونخواہ سرکار لاہور اور اسلام آباد میں دربار سجھا کر بیٹھی ہے، صوبے کی ایلیٹ فورس کے اہلکار زماں پارک لاہور میں سیکورٹی ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ ملکی معیشت سیلاب بلا میں غوطے کھا رہی ہے، کبھی ڈوبتی ہے، کبھی ابھرتی ہے ، تنکے کا انتظار کر رہی ہے کہ آئے تو سہارا پکڑے۔ قاتلوں ، اغوا کاروں ، چور ڈکیتوں کے غول سڑکوں بازاروں پر دندنا رہے ہیں اور پولیس اور عدل والے ان کے ساتھ ایک ہی پیج پر ہیں۔ طالبان نے سرحد کی لکیر پر انگارے بچھا دئیے ہیں، ایک جھونکا آنا ہے اور انگارے ہمارے آنگن میں بکھر جانے ہیں۔ اتنا کافی ہے یا موسم کا حال اور بھی سنائوں، کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ، فضا دیکھ۔!
_________
مبارک ہو صاحبو، خیبر پختونخواہ اسمبلی ٹوٹنے سے بچ گئی۔ ارے، نہیں سمجھے؟۔ پنجاب اسمبلی کے ٹوٹتے ہی اس اسمبلی نے بھی غائب ہو جانا تھا۔ اب پنجاب میں عدم اعتماد آ گئی، عدم اعتماد کیا، یہاں تو اعتماد کے ووٹ والا معاملہ بھی آ گیا، مطلب پنجاب اسمبلی نہیں ٹوٹے گی اور وہ نہیں ٹوٹے گی تو کے پی والی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ سو مبارک ہو کہ کے پی اسمبلی بچ گئی۔
_________
گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ کو آج اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیا۔ جو ہو گا آج شام تک پتہ چل جائے گا۔ اتنے کم عرصے کے ماجرے میں پیش گوئی کی کیا ضرورت۔ البتہ لگتا ہے اس بار ڈبل گیم کے شہنشاہ کے ساتھ ڈبل گیم ہو گئی۔ بھئی وہی شہنشاہ جس نے پی ڈی ایم اور زرداری سے سمجھوتہ کیا، قول و قرار بھی کئے، مٹھائی بھی کھائی اور پھر پی ٹی آئی کے سیاسی گھر جوائی بن گئے۔
اسمبلی نہیں توڑنا چاہتے تھے، اپنی راج گدی بھی نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ ادھر عمران کا حکم تھا اسمبلی توڑو۔ مجبور ہو کر راہ نہ پائی تو باجوہ صاحب کا بہانہ بنا کر عمران خان کو لتاڑ ڈالا اور شجاعت کے ذریعے ایک بار پھر ڈبل گیم کا ڈول ڈالا۔ راتوں رات تحریکِ عدم اعتماد آ گئی۔ اپنے سیکرٹری کو حکم دیا کہ ترنت پہنچو اور میرے خلاف تحریکِ عدم اعتماد وصول کرو۔ سو سیکرٹری صاحب دس بجنے میں نو متٹ رہتے تھے کہ سیکرٹریٹ پہنچے۔ درخواست وصول کی۔ ایسا ہی ہوا کہ نہیں؟ اگلی بات کا انہیں پتہ ہی نہیں تھا۔
ٹریپ ہو گئے، ادھر تحریکِ عدم اعتماد وصول پائی رسید پی ڈی ایم والوں نے لی، ادھر گورنر صاحب نے اعتماد کا ووٹ لینے کو کہہ دیا۔
یہ کیا ہو گیا بھائیا؟۔ ڈبل گیم ہو گئی بھائیا!
_________
اپنے شیخ جی کو کیا ہوا، مایوسی کی دلدل میں گھٹنوں تک ڈوب گئے۔ فرماتے ہیں اسمبلی ٹوٹے نہ ٹوٹے، ہم لوگوں کے دل ٹوٹ گئے ہیں۔ اب پتہ نہیں ، ’’ہم‘‘ سے مراد وہ اکیلے خود ہیں یا ان کے گورو گورکھ ناتھ بھی شامل ہیں۔ اگلا مہینہ اہم ہے، اگلا ہفتہ اہم ہے، اگلے پندرہ دن اہم ہیں، یہ کہتے کہتے کتنا عرصہ بیت گیا کوئی امید بر آئی نہ صورت نظر آئی۔ آگے تنہائی کا دشت شیخ جی کی راہ دیکھ رہا ہے۔ ابھی سے دل ٹوٹ گیا تو آگے کیا ہو گا۔
فرمایا، صدر صاحب ’’سپریم کمانڈر‘‘ ہیں، اپنے آئینی اختیارات استعمال کریں (اور ہمارے ٹوٹے دل پھر سے جوڑ ڈالیں)۔ یہ تو فرما دیا لیکن یہ نہیں فرمایا کہ صدر صاحب کون سے اختیارات استعمال کریں، کیا کریں۔ سپریم کمانڈر ہونے کے ناتے کیا پھر سے چشمۂ فیض کو جاری کر دیں، خصوصی حکم نامے سے پنجاب اسمبلی توڑیں ، عدالتوں کو حکم صادر فرما دیں کہ 24 اپریل والی پوزیشن بحال کر دیں، کیا کر دیں؟۔ کچھ تو وضاحت کی ہوتی۔
_________
ویسے ذرا تصور کریں، آج سے پانچ برس بعد یعنی 2027ء میں شیخ جی کی گل افشانی گفتار کیا ہو گی؟۔ چلنے کا ٹائم مشین پر ٹائم ٹریول کرتے ہیں اور 2027ء میں پہنچ جاتے ہیں، بمقام راولپنڈی، محلہ لال حویلی خاص براستہ راجہ بازار۔
شیخ جی کرسی پر تشریف فرما ہیں، پریس کانفرنس ہو رہی ہے، چہرے کی بزرگی فزوں تر ہے۔ بزرگی کا غلبہ اسقدر ہے کہ وگ بھی سفید بالوں والی سر پر ڈال لی ہے۔ آنکھوں کا نصف قطر آدھا رہ گیا ہے۔
ہاتھوں میں تپ لرزہ کی کیفیت ہے۔ دوران کلام آ۔ آ ۔ آ ۔ اے ، اے، اے کے راگ مالکونس کا دورانیہ بھی بڑھ گیا ہے، چلئے ، سنتے ہیں کیا فرما رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
’’میں کہتا ہوں، لکھ لو، شریفوں کی سیاست دفن ہونے جا رہی ہے۔ اگلے چھ مہینے بہت اہم ہیں، مار دو ، جلا دو، آگ لگا دو، یہ کمینے ہیں، بے غیرت ہیں، یہ چور ہیں، ڈاکو ہیں۔ ان کی سیاست اب بچ نہیں سکتی،مریم نواز کی سیاست بھی دفن ہو گئی، نواز شریف کا سیاسی جنازہ اٹھنے والا ہے۔ جلا دو، آگ لگا دو، تباہ کر دو، ’’چور ہیں، ڈاکو ہیں، اگلا ہفتہ بہت اہم ہے، ہانگ کانگ کے شعلے دیکھ رہا ہوں، ہر طرف خون ہی خون ہے۔ ملک سری لنکا بنے گا، صدر صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے آئینی اختیارات استعمال کریں، آگ لگا دیں، جلا دیں، گرا دیں، مار دیں، مر جائیں، اگلے دو سال بہت اہم ہیں، شریفوں کی سیاست دفن ہونے جا رہی ہے۔ لال حویلی کا قبضہ نہیں چھوڑوں گا، اوقاف والے آئے تو جان پر کھیل جائوں گا۔ لکھ لو، اگلا ہفتہ بہت اہم ہے۔ شریفوں کی سیاست کا جنازہ ہو گا، قبر کھد چکی ہے، جلا دو، گرا دو، مار دو، مر جائو، لعنت بھیجتا ہوں، سو بار لعنت بھیجتا ہوں۔ صدر صاحب خدا کے لیے کچھ کریں، ہمارا دل ٹوٹ گیا ہے۔ اسمبلی کو ٹوٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا اگلا سال بہت اہم ہے، جلا دو، گرا دو، خون خون آ ۔ آ ۔ آ۔ ‘‘۔