اسلا م آبا د (خصوصی نامہ نگار/نمائندہ خصوصی)بحریہ یونیورسٹی میں تیسری دو روزہ "بین الاقوامی بحری امور سمپوزیم 2022ئ" کی افتتاحی تقر یب سے خطا ب کر تے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات ڈاکٹر احسن اقبال نے کہا ہے اگر ہم وژن 2025ء پر جم کر کام کرتے تو ہم آج تیز تر ترقی کے سفر پر گامزن ہوتے جبکہ ہم نے میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کے لیے 8 بحری جہازوں میں سرمایہ کاری کی۔ سمپوزیم کا موضوع "بحرہند خطے میں اقتصادی امور کے مواقع" رکھا گیا ہے۔ احسن اقبال نے بطور مہمان خصوصی شر کت کی جبکہ اس مو قع قومی ادارہ برائے بحری امور (نیما) کے ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین ایڈمرل (ر) محمد آصف سندھیلہ اور سفارتکاروں کی کثیر تعداد بھی موجودتھی ۔ ڈائریکٹر جنرل نیما نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ احسن اقبال نے کہا کہ قیام پاکستان کے ملک اور آج کے پاکستان کا مقابلہ کریں تو بہتری آئی ہے اس وقت جو ملک ایک سائیکل نہیں بنا سکتا تھا آج جے ایف 17 تھنڈر طیارے بنا رہا ہے ایک وقت میں رابطے محال تھے، آج دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں بہترین فائبر آپٹک ہے آج جب پاکستان کاخطے کے ساتھ موازنہ کریں تو ہماری قدرے ترقی گہنا جاتی ہے۔1980ءمیں پاکستانی 300 ڈالر تھی آج قدرے بہتر ہے۔ہمارا وژن آئندہ سال نہیں، 1947ءہے ہمارے ہاں سب کچھ ہے، پالیسیوں کا تسلسل اور سیاسی استحکام نہیں۔پاکستان کو اللہ نے ہر نعمت سے نوازا، بلیو اکانومی مجموعی ملکی معاشی مواقع میں سے ایک ہے۔ انہو ں نے کہا کہ بحری اقتصادیات میں پاکستان کے لیے 450 ارب ڈالر سے زیادہ کے فوائد موجود ہیں۔ 20ویں صدی سیاسیات کی صدی تھی، 21ویں صدی اقتصادی نظریات کی صدی ہے۔آج کی سرد جنگ سیاسی اقتصادیات پر مبنی ہے جو جی 7، جی 20 اور جی 77 پر مشتمل ہے ۔جب پہلے حکومت سنبھالی اس وقت بھی ملک دہشتگردی کا شکار، ڈیفالٹ کا خطرہ، 17 سے 18 گھنٹے لوڈ شیڈنگ تھی۔پھر میاں محمد نواز شریف نے حکومت سنبھالی اور پھر 46 ڈالر چینی سرمایہ کاری ہوئی۔ہمارے گزشتہ دور میں توانائی کی ضروریات پوری ہوئیں، 11 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی۔1947ءسے 67 سال میں 18 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی گئی، صرف چند سالوں میں 11 ہزار میگاواٹ بجلی بنی۔میرے پاس امریکہ، برطانیہ اور یورپین یونین سفراءآتے کہاں سرمایہ کاری کرنا ہے۔پھر کیا ہوا؟ چار سال میں ہم اپنے قرضے آگے بڑھانے کی منتیں کرتے رہے۔اگر ہم ویژن 2025ء پر جم کر کام کرتے تو ہم آج تیز تر ترقی کے سفر پر گامزن ہوتے۔آج مجموعی اقتصادیات کے ساتھ مجموعی سیاسیات جڑی ہے۔پاکستان میں گزشتہ 4 سالوں میں سی پیک کو انتہائی سست روی کا شکار کر دیا گیا۔سی پیک کا پیچھے جانے کے بارے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔گہرے سمندر میں 50 سال پرانے جہازوں سے گشت ممکن نہیں تھی۔ہم نے میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کے لیے 8 بحری جہازوں میں سرمایہ کاری کی۔ گزشتہ چار سالوں میں گوادر بندرگاہ کی گہرائی پر کام نہیں ہوا، مرمت نہیں کی گئی۔گزشتہ چار سالوں کے دوران چین کی سستے ترین بریک واٹر منصوبے پر کوئی کام نہیں ہوا۔بین الاقوامی دنیا اب بھی سمجھتی ہے پاکستان کام کرے تو 2030ءتک بہترین اقتصادی قوت بن سکتی ہے۔انہو ں نے کہا کہ گوادر کو پانی، بجلی کی فراہمی چار سال پہلے بھی ہو سکتی تھی، آج ہوئی ۔اب گوادر کو آئندہ 5 سال کے لیے پانی کا کوئی مسئلہ نہیں ۔ایک زمانے میں پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن ملک کا فخر تھی، آج کہاں ہے؟پاکستان کے تمام اداروں میں ترقی کے بیش بہا مواقع موجود ہیں، ہمیں بھرپور توجہ دینا ہو گی۔انسٹیٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز کے صدرسابق سفیر ندیم ریاض نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان، بنیادی ڈھانچے کی بہتری، توانائی بحران کے خاتمے، سرمایہ کاری، قرضوں سے آزادی، بھارتی خطرات کا مقابلہ چاہتا ہے۔بھارتی ماہرین سی پیک کو خطرہ سمجھتے ہیں جبکہ چین نے اپنی موجودگی کو ہمیشہ امن سے عبارت کیا ہے۔بحرہند میں چین کا اثرورسوخ کم سے کم کرنا، بھارتی معیشت، بحری دفاع کو وسعت دینے کی جانب گامزن ہے ۔200 بحری جہاز، جوہری آبدوزیں، چاہ بہار میں بھاری سرمایہ کاری بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کا عکاس ہے۔پاکستان کے پاس "بحرہند پالیسی" نہیں، ماضی میں بھی ہم سمندری اندھے پن کا شکار رہے، پاکستان آج بھی بحرہند رم فورم کا حصہ نہیں۔سی پیک سے اقتصادی ترقی، بحری دفاع، دوستی مستحکم، روزگار، انسداد غربت، سیاحت بہترہو ئی ہے ۔وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے پاکستان کے ساحل خصوصاً گوادر اقتصادی ترقی کے لیے کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ڈالر کے مقابلے میں یوآن میں تجارت کی آوازیں تیزی سے زور پکڑ رہی ہیں۔ دریں اثناءوفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال نے ڈیجیٹل میڈیا کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ ملک میں اگلے عام انتخابات اکتوبر 2023 میں ساتویں ڈیجیٹل مردم شماری 2022 کی بنیاد پر ہوں گے۔
احسن اقبال