کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے ایک بار پھر تخریب کاری کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ختم کر کے یہ دہشت گرد تنظیم ایک بار پھر ملک بھر میں انتشار پھیلانے کے ایجنڈے پر چل پڑی ہے۔ خیبر پختونخوا میں کالعدم ٹی ٹی پی کی طرف سے کی جانے والی تازہ کارروائیوں میں شمالی وزیرستان میں فورسز کی گاڑی پر خودکش حملے کے نتیجے میں ایک فوجی جوان اور دو شہری شہید ہو گئے۔ ادھر، بنوں میں دہشت گردوں کے سی ٹی ڈی کمپاو¿نڈ میں قبضہ تادمِ تحریر جاری ہے اور اس حوالے سے سرکاری سطح پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ مذکورہ کالعدم تنظیم اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے جس میں فائرنگ کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق دو پولیس اہلکار شہید اور متعدد سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔ دہشت گرد جائے وقوعہ سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں جس میں وہ نہ صرف اپنے لئے محفوظ راستہ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں بلکہ زیر حراست عملہ کے ذریعے بھی بنوں کے علماءکرام سے مذاکرات کی اپیل کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے قائم کیے گئے محکمے کے مرکز پر دہشت گردوں نے قبضہ کیا ہے اور سرکاری مشینری اس سلسلے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ محکمہ اس حد تک مستعد ہو کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں میں گھس کر ان کا خاتمہ کرے لیکن اس وقت اس محکمے کے اہلکار ہی دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس واقعے کو سامنے رکھ کر صوبہ خیبر پختونخوا کے پورے سکیورٹی نظام کا جائزہ لے تاکہ ان خامیوں اور نقائص پر قابو پایا جاسکے جن کی وجہ سے یہ تکلیف دہ واقعہ پیش آیا ہے۔ علاوہ ازیں، سکیورٹی اداروں کو پورے ملک میں بھرپور کارروائی کر کے کالعدم ٹی ٹی پی نامی عفریت پر قابو پانا چاہیے تاکہ دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو خاک میں ملایا جاسکے۔