انگلینڈ نے پہلی بار ہوم لینڈ پر پاکستان کو وائٹ واش کر دیا۔ ٹیسٹ سیریز صفر تین سے جیت لی۔
قصہ ختم حساب بے باک۔ انگلینڈ نے پاکستان کو ٹیسٹ سیریز کے تیسرے یعنی آخری میچ میں بھی ہرا کر وائٹ واش کر دیا۔ یہ سیریز حقیقت میں یکطرفہ رہی۔ راولپنڈی، کراچی اور ملتان میں کھیلے گئے یہ تمام میچ اپنی مردہ پچوں کی وجہ سے بور ثابت ہوئے۔ لمبی لمبی اننگز بڑے بڑے سکور کے باوجود ہماری ٹیم وہ رنگ نہ جما سکی۔ یہ سب میچ انگلینڈ کے کھلاڑیوں کے نام رہے جنہوں نے ہر شعبہ میں اپنی مہارت کی دھاک بٹھا دی۔ باﺅلنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ کون سا شعبہ ایسا نہیں جس میں انہوں نے اچھی کارکردگی نہ دکھائی ہو۔ اس کے جواب میں ہماری ٹیم کی کارکردگی تینوں میچوں میں اور تینوں شعبوں میں سب کے سامنے ہے۔ لگتا تھا گلی محلہ کی ٹیم ہو۔ اونچی دکان اور پھیکا پکوان والی حالت بھی۔ کوئی دلجمی سے کھیل ہی نہیں رہا۔ بس وقت گزارہ جا رہا ہے۔ شاید کھلاڑی کھیلنے کے موڈ میں ہی نہیں تھے۔ ورنہ کم از کم ایک میچ ہی جیت کر ناقدین کا منہ بند کر دیتے۔ بہرحال اب انگلینڈ ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے، جس نے پہلی مرتبہ پاکستان میں یعنی ہوم لینڈ میں پاکستانی ٹیم کو وائٹ واش کرنے کا اعزاز اپنے نام کر لیا ہے۔ اب پی سی بی یا ٹیم کا کوئی کرتا دھرتا اس بارے میں اپنی کوتاہی تسلیم کرے گا یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ البتہ پی سی بی کے چیئرمین رمیز راجہ کا بینڈ باجا ضرور بج سکتا ہے جن کے بارے میں اطلاعات یہی ہیں کہ انہیں رخصتی کا سندیسہ ملنے والا ہے۔ باقی سب جن میں کھلاڑی بھی شامل ہیں انہی کی قربانی پر سجدہ شکر بجا لائیں گے کہ ہم بچ گئے۔
٭٭٭٭٭
میرے خلاف بات تحریک انصاف کے بیانیے پر تنقید ہے۔ عثمان بزدار
یہ تو بڑے پتے کی بات کی ہے عثمان بزدار نے۔ سبھی جانتے ہیں کہ وہ عمران خان یعنی پی ٹی آئی کے چیئرمین کی ناک کا بال تھے یا یوں کہہ لیں نفس ناطق تھے۔ خود عثمان بزدار نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ”میں نئیں بولدی میرے وچ میرا یار بولدا“
کامل 3 برس چیئرمین پی ٹی آئی نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبایا۔ ہر مخالفت کا گلا گھونٹ کر اسے خاموش کر دیا۔ پی ٹی آئی کے بڑے بڑے سورما بزدار کے مقابلے پر آئے مگر منہ کی کھا کر گئے کیونکہ ان کے سامنے عثمان بزدار نہیں عمران خان کا بیانیہ ہوتا تھا۔ یوں ”سر آئینہ میرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے“ کی کامل یگانگت دیکھنے کو ملتی رہی۔ پھر حالات ایسے بدلے کہ خود عمران خان کو یوٹرن لینا پڑا اور اپنے نفس ناطق سے جان چھڑانی پڑی۔ حکومت پنجاب کو اپنی گرفت میں رکھنے یعنی پنجاب پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے اپنے سب سے بڑے مہرے یعنی وزیر اعلیٰ پنجاب کی قربانی دینی پڑی۔ اتحادی ق لیگ کے چودھری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانا پڑا۔ جو برملا کہتے پھرتے ہیں کہ پنجاب کو سب سے زیادہ سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا۔ ان کی حکومت میں کوئی ترقی نہیں ہوئی۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی وزرا اور لوگ عثمان بزدار پر تیر چلاتے ہیں مگر جواب میں عثمان بزدار نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے دور میں پنجاب میں سب سے زیادہ ترقی ہوئی۔ گورننس بہترین رہی۔ میرے سینے میں بہت راز دفن ہیں۔ شاید اسی وجہ سے وہ اپنے دور حکومت میں بھی چپ ہی رہتے تھے کہ کہیں راز کھل نہ جائیں وہ سوچتے ہوں گے کہ جو لوگ کل تک ان سے وقت لے کر ملاقات کرتے فنڈز جاری کرانے کے لیے ترلے منتیں کرتے تھے آج کس ڈھٹائی سے ان پر الزام تراشی کرتے ہیں۔ شاید اس کا نام سیاست ہے جس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
٭٭٭٭٭
اپنے خون سے مصوری کرنے والے فلپائنی مصور کا چرچا
چرچا تو ہونا ہی ہے اس مصور کا جو رنگ خریدنے کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے خون سے تصویریں بنانے پر مجبور ہوا۔ ویسے بھی شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ اب معلوم نہیں وہ اپنے جسم پر زخم لگا کر لہو میں برش ڈبو ڈبو کر تصویریں بناتے ہیں یا خون کی بوتل نکلوا کر اسے محفوظ کر کے اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔ بہرحال اس کام پر تنقید بھی بہت ہو رہی ہے مگر چرچا بھی بہت ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں بھی کسی زمانے میں خطوط خون سے تحریر کرنے کا بہت رواج تھا ہزاروں عشاق اپنے لہو سے چند سطریں تحریر کر کے اپنے محبوب کو اپنی بے مثال اور لازوال محبت کا یقین دلاتے تھے۔ مگر ایسے کاموں کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلتا تھا کیوں کہ ہمارے ہاں خون سے زیادہ خونی رشتے مضبوط ہوتے ہیں چنانچہ بہت کم ایسا ہوتا کہ خون سے خط لکھنے والے مل پاتے۔ بقول شاعر
اے کہ اب بھول گیا رنگ حنا بھی تیرا
خط کبھی خون سے تحریر ہوا کرتے تھے
یہی وجہ ہے ہمارے ہاں ”تصویر بناتا ہوں تقدیر نہیں بنتی“ کا شور بھی بہت رہتا تھا۔ پھر شاید نوجوانوں میں خون کی کمی ہو گئی یا موبائل فون کی وجہ سے خط تحریر کرنے کا رواج ختم ہو گیا اور یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ ورنہ غالب جیسے عہد ساز بھی
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک
کہہ کر محبوب کی بے رخی کا اور اپنی بے تابی کا رونا روتے تھے۔ مگر اس دور میں بھی بہت کم کسی عاشق صادق یا عاشق کاذب کے دل میں یہ خیال نہیںآیا کہ خون سے تصویر بتاں بنائے۔ حالانکہ یہی حضرت غالب
سیکھیں گے حسینوں کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے
کا مشورہ دیتے نہیں تھکتے تھے۔ مگر خون سے مصوری کا ذکر ان سے بھی نہیں ملتا۔ جبکہ خونی انقلاب کا تذکرہ ہر ایک شاعر، ادیب اور مصور کے ہاں جابجا ملتا ہے۔
٭٭٭٭٭
دھمکیوں اور بھتے کے مطالبات، چینی کمپنی کی سندھ حکومت سے سکیورٹی بہتر بنانے کی درخواست
ایک طرف ہماری حالت یہ ہے کہ کوئی ہمارے ہاں سرمایہ کاری پر تیار نہیں۔ کرپشن، رشوت، امن و امان کے مسائل ہر بڑھتے ہوئے قدم کو روک دیتے ہیں۔ دوسری طرف جو بھولا بھٹکا سرمایہ کاری کرنے کے لیے پاکستان کا رخ کرتا ہی ہے تو ہر کام پر اسے طرح طرح کی رکاوٹیں تنگ کرتی ہیں۔ سندھ میں چینی کمپنی یہاں ٹرانسمشن لائنز کی اپ گریڈیشن کا کام کر رہی ہے۔ اس کو اور اس کے کنٹریکٹرز کو مسلح افراد کی طرف سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور بھتے دینے کے لیے دباﺅ ڈالا جا رہا ہے۔ اب ظاہر ہے کوئی بھی غیر ملکی کمپنی ان حالات میں کام جاری نہیں رکھ سکتی۔ جہاں جان کا بھی خطرہ ہو اور مال کا بھی۔ اب یہ حکومت سندھ کس مرض کی دوا ہے۔ وہ اگر بھتہ خوروں کو جانتی ہے تو الٹا ٹانگ کیوں نہیں دیتی اگر نہیں جانتی تو تلاش کر کے ان کا کام تمام کرے۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات جس نوعیت کے ہیں ان میں کم از کم ہم ان کو تو ناراض کر نہیں سکتے۔ اب لے دے کر وہی تو رہ گئے ہیں جو تمام تر خدشات کے باوجود ہمارے ہاں آ کر ہمارے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ ہماری معاشی حالت بہتر ہو۔ ان کا تحفظ ہم سب کی اہم ذمہ داری ہے۔ حکومت سندھ بھنگ پی کر نہ سوئی رہے۔ سخت ایکشن لے۔ اگر چائنا والے بھی یہاں سے چلے گئے تو یہاں صرف بھتہ خور اور گورکن ہی رہ جائیں گے۔ باقی سب زیر زمین جا کر آباد ہوں گے۔
٭٭٭٭٭
بدھ،26 جمادی الاوّل 1444،21 دسمبر2022ء
Dec 21, 2022