قوموں کی زندگی میں اونچ نیچ ، اتار چڑھاﺅ آتے رہتے ہیں۔ قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جو ان سب تکالیف کا مردانہ وار مقابلہ کرتی ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں ہم ایک قوم تھے اور حصول ملک کیلئے پرامن سیاسی جدوجہد کررہے تھے اور جب یہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور پاکستان معرض وجود میں آگیا تو بانی پاکستان کی رحلت کے بعد ایسے حالات رونما ہوئے کہ ملک کے حصول کے بعد ہم صوبائیت اورمنافرت میں پڑگئے اور وہ قوم نہ رہے جو قیام پاکستان کے وقت تھی۔ قیام پاکستان کیلئے ہمارے بزرگوں، جوانوں اور خواتین نے بے مثال قربانیاں دیں اور ہمیں خطہ پاک حاصل ہوا۔ہماری نئی نسل کی اکثریت ان قربانیوں سے آگاہ نہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ قیام پاکستان کی تاریخی جدوجہد میں بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں پر مظالم کے کیا کیا پہاڑ توڑے گئے تھے۔ مگر آفرین ہے ان کی ثابت قدمی پر اور بانی پاکستان کی ولولہ انگریز قیادت اور ان کے رفقائے کار کے عزم و ہمت پر انہوں نے مصائب ، مشکلات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حصول پاکستان تک اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے سیاستدان باہمی سیاسی چپقلش کے باعث نوزائیدہ مملکت اور پاکستانی قوم کو صحیح خطوط پر استوار نہ کر سکے جن مقاصد کے پیش نظر پاکستان قائم ہوا تھاانہیں فراموش کردیا۔ آج بھی ہمیں انہی حالات کا سامنا ہے۔ کوئی پنجابی ہے تو کوئی سندھی کوئی پختون ہے تو کوئی بلوچی یہ بجا کہ پاکستان مختلف قومیتوں کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے مگر اس گلدستے کا گلدان پاکستان ہے پاکستان ہے تو ہم سب ہیں اگر آپ بھارت کی طرف دیکھیں تو وہاں مسلمان کسمپرسی کی حالت میں ہیں ان کے ساتھ انتہائی معاندانہ اور معتصبانہ رویہ روا رکھا جارہا ہے۔ مساجد شہید کی جارہی ہیں ، مسلمانوں کے گھر جلائے جارہے ہیں، مسلمان خواتین کی بے حرمتی کی جارہی ہے ۔ یہ سب دیکھ کر بابائے قومؒ اور ان کی رفقاءکی فہم وفراست کیلئے بے اختیار دعائیں نکلتی ہیں کہ انہوں نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان قائم کیاجس میں ہم آج سکھ کا سانس لے رہے ہیں۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو ہم بھی آج اسی ہندوتوا کا شکار ہوتے۔ الحمد للہ! اب ہم ایک زندہ قوم ہیں اور ہمیں اس کا ثبوت بھی دینا ہوگا اور ہمیں وہی وطیرہ اختیار کرنا ہوگا جو زندہ قوموں کا شیوہ ہوتا ہے۔آج وطن عزیز ہم سے اس بات کا متقاضی ہے کہ ہمیں معاشی مشکلات کا ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے ملک میں ہر آدمی مہنگائی کی شکایت کررہا ہے ، پٹرول مہنگا ہے ، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، گیس مہنگی ہے ، ادویات کے دام بڑھ گئے ہیں جس کے باعث غریب آدمی کی حالت دگرگوں ہے اور ان آوازوں کا شور پورے ملک میں سنا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کچھ اپنی جگہ درست مگر تحریک جدوجہد آزادی اور اس میں ہمارے باپ دادا کی دی جانے والی فقید المثال قربانیوں کے مقابلے میں یہ مہنگائی کیا حیثیت رکھتی ہے اگر ہمیں پھر سے قیام پاکستان والی قوم بنناہے تو پھر جذبہ بھی وہی پیدا کرنا ہوگا۔ بجلی، پٹرول ، گیس یہ سب آپ کے ہاتھ میں ہے ان کا ضرورت کے وقت اور کم استعمال کریں تو آپ کے اخراجات میں کمی ہوگی یہ ایک عبوری وقت ہے اور گزر جائے گا۔ اور یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ کوئی بھی حکومت جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئی ہو تو اس کا کبھی بھی یہ مطمع نظرنہیں ہوتا کہ وہ اپنی قوم اور ووٹروں کیلئے مشکلات پیدا کرے لیکن حالات اور واقعات کے پیش نظر با امر مجبوری اسے یہ اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی حکومت تنہا کچھ نہیں کر سکتی عوام کو اس کا ساتھ دینا ایک لازمی امر ہے کہ حکومت بھی تو عوام کی ہی ہوتی ہے۔ ہاں اس حوالے سے حکمرانوں کا رویہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آیا ان میں جذبہ اخلاص موجود ہے اور اگر ایسا ہے تو پھر حالات یقینا بدل جاتے ہیں اور پھر موجودہ حکومت کو آئے ہوئے بھی کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ،کیا وہ حالات پر قابو پا لے گی جو بہت مشکل دکھائی دیتا ہے ابھی تک تو عوام کی پریشانی کی طرف کسی کا دھیان نہیں جارہا سب سیاستدان اسمبلیوں کی توڑ ، پھوڑ اورسیاسی جوڑتوڑ میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔عمران خان کہتے ہیں الیکشن کراﺅ اور ملک بچاﺅ اور پی ڈی ایم حکومت کہتی ہے فوری الیکشن مسائل کا حل نہیں ہے الیکشن اپنے وقت پر ہوں گے۔ کوئی ایک دوسرے کو برداشت ،آپس میں ڈائیلاگ اوران مسائل کا راہ حل تلاش کرنے کیلئے تیار نہیں۔ یہ عوام کی بجائے صبح شام اقتدار کی فراق میں ہیں۔ ایسا غیرسنجیدہ رویہ سیاستدانوں اورعوام سمیت کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ مہنگائی میں کمی کو اپنی پہلی ترجیح کے طور پر لے اور ایسے اقدامات کرے جس سے عوام کو مہنگائی سے فوری چھٹکارا حاصل ہو اور حکومت میں مختلف سیاسی جماعتوں کے تجربہ کار سیاستدان موجود ہیں وہ اپنی دور اندیشی سے حالات پر قابو پائیں ۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ اس اہم مسئلے پر عوام کو اعتماد میں لیں، اس ضمن میں عوام کو مہنگائی کی وجوہات اور اس کے حل کیلئے حکومتی اقدامات سے آگاہ کیاجائے ۔ اس سلسلہ میں بہتر ہوگا کہ حکومت اپنے مخالف سیاستدانوں کو بھی اعتماد میں لے۔ پاکستانی قوم اب با شعور ہے وہ نیک وبد میں تفریق کرنے کی صلاحیتوں کی حامل ہے اگر حکومتی جواز واقعی قابل اعتماد ہوئے تو حکومت عوام کو شانہ بشانہ اپنے ساتھ پائے گی۔