کراچی(نیوز رپورٹر)سندھ میں شرح خواندگی کوبہتر بنانے سے متعلق پیپلز پارٹی کی رکن شرمیلا فاروقی کی تحریک التوا پر منگل کو ایوان میں دن بھر تفصیلی بحث ہوئی جس میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان نے بھرپور طریقے سے حصہ لیا۔ اس بحث کے سبب منگل کو پرائیوٹ ممبرزڈے کا بزنس بھی اگلے روز کے لئے موخر کردیا گیا اب بدھ کو ایوان میں پرائیوٹ ممبرز ڈے ہوگا۔سندھ اسمبلی کا اجلاس منگل کو بارہ بجے مکے مقررہ وقت کے بجائے ایک گھنٹے پانچ منٹ کی تاخیر سے اسپیکر آغا سراج درانی کی زیر صدارت شروع ہوا۔کارروائی کے آغاز میں پیپلز پارٹی کی خاتون رکن شرمیلا فاروقی نے اپنی تحریک التوا پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا۔جس کا مقصد تھا کہ شرح خواندگی کو سو فیصد پر لیکر جانا تھا۔1996میں بی بی کی حکومت کو ختم کردیا گیا۔30سال بعد جو شرح خواندگی دیکھ رہے ہیں وہ بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے ۔پاکستان کو 2015 میں 88 فیصد پر آجانا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی پاکستان میں 2 کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں۔سیلاب کی تباہ کاریوں سے 19 ہزار اسکول متاثر ہوئے۔کورونا میں بھی اسکول مکمل طور پر بند ہوئے تھے اورابھی تک 10 لاکھ بچے واپس اسکول نہیں جاسکے۔ہمیں اس پر غور کرنا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ اسکولوں کی بحالی کے لیے 139 ارب روپے کی ضرورت ہے۔ ہزاروںگھر بھی بہہ گئے ہیں۔نقصانات کے زالے کے لئے اتنے پیسے شاید ہی ہمیں ملیں گے۔ہم سب کی پہلی ترجیح گھر بنانا ہے۔اس وقت ہمیں عارضی لرننگ سینٹر کی طرف جانا ہوگا۔ایک کلسٹر اسکول بنا دیں۔جہاں آبادی قریب ہے وہاں اسکول بنا دیں۔شرمیلا فاروقی نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو لانا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یوکرین میں بھی جنگ جاری ہے ۔لیکن انہوں نے 41 فیصد اسکول کھول لیے ہیں۔ہماری بھی نیت اچھی ہے۔مجھے امید ہے ہم بھی کامیاب ہوجائیں گے۔پیپلز پارٹی کی ہیر سوہو نے کہا کہ سندھ میں2017 سے ایس این ایز نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے اسٹاف کی کمی ہے۔ہر بندہ چاہتا ہے مجھے گھر کے پاس والے اسکول میں مقرر کیا جائے۔ٹیچرز کی تقرری کا میکانزیم بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ آدھے ایم پی اے اساتذہ کی تقرریوں کے پیچھے لگے ہوتے ہیں۔ایم کیو ایم کے جاوید حنیف نے کہا کہ کسی بھی ملک کے لئے تعلیم اور صحت بہت اہم ہوتا ہے۔پوری دنیا اچھی تعلیم اور اچھی صحت پر کام کررہے ہیں۔تعلیم کی اہمیت کو ہمارے آئین میں بھی ہے۔ قانون پر عملدرآمد نہیں ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں چھ کروڑ لوگ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے۔سندھ میں دوایسے لوگوں کی تعداد دو کروڑ ہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں لٹریسی ریٹ کم ہوا ہے۔بچے کھیتوں اور ورکشاپس میں کام کرتے ہیں۔وہ والدین کے لیے کمائی کا ذریعہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کو زیادہ وظیفہ زیادہ ملنا چاہیے ہمارا پاس گورننس کا بھی ایشو ہے۔ہمارا نظام طبقاتی تقسیم پیدا کرتا ہے۔جی ڈی اے کے عبد الرزاق کے راہیموں نے کہا کہ سندھ میںاساتذہ کی بھرتی ہوئی بہت بڑی بات ہے۔بہت سے اسکولوں میں فرنیچر کی ضرورت ہے۔غریب بچوں کو اسکالر شپ دی جائے۔پیسے درست طور پر خرچ نہیں ہوتے ہیںاس حوالے سے چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے۔تھر میں اساتذہ کو اسپیشل الائنس دیا جائے۔تحریک انصاف کے منحرف رکن شہریار شر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم پی ٹی آئی کے 30 ارکان تھے۔جب جزیروں کا سودا ہورہا تھا میں اکیلا کھڑا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہم سندھی ہیں ہمیں فخر ہے۔پی ٹی آئی کے فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ پاکستان میں لٹریسی 100 فیصد ہونا ضروری ہے۔جنریشن بنانے کے لئے ماں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔خواتین کی تعلیم پر توجہ دی جائے۔ پیپلز پارٹی کے امداد پتافی نے کہا کہ تعلیم سب کا حق ہے۔تعلیم کے لئے جہاں بھی جانا پڑے آپ جائیں۔سچ یہ ہے ہمیں جتنا بھی تعلیم کے لئے کرنا چاہیے تھا۔وہ ہم نہیں کرسکے۔ہمیں تہیہ کرنا چاہیے کہ بچوں کو تعلیم دینی ہے۔ایم کیو ایم کے محمد حسین نے کہا کہ اسمبلی میں ارکان کی غیر حاضری سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم تعلیم سے کتنی دلچسپی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارا سب سے زیادہ بجٹ تعلیم اور صحت پرخرچ ہوتا ہے دونوں ہی شعبوں میں ہم پیچھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس ہاﺅس کی ایک کمیٹی بنائیں اور ارکان اسمبلی تعلیم کی بہتری کو دیکھیں۔بغیر ٹارگٹ کے کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔نجی اسکول کا جو نظام تعلیم ہے اس نے سرکاری بوجھ اٹھایا ہوا ہے۔پیپلز پارٹی کے ریاض حسین شاہ شیرازی نے کہا کہ آئی بی اے کے ٹیسٹ میں میرٹ پر بھرتی ہوئی۔ٹھٹھہ میں ابھی 1400 اسکول بند ہیں۔آپ نے مارکس کم کرکے اساتذہ کو بھرتی کیا۔وہاں پر بھی آ فر آرڈر دئیے جائیں۔پی ٹی آئی کی رابعہ اظفرکا کہنا تھا کہ ایک لاکھ سے زیادہ بچے بھیک مانگ رہے ہیں۔صوبے میں 1.7 ملین بچے لیبر میں ہیں۔صوبے میں 50 کے قریب یتیم خانے ہیں۔ان کے پاس بہت سے بچے ہیں۔حکومت ان کو تعلیم کی سہولت دینے سے قاصر ہیں۔انہوں نے کہا کہ سوشل ویلفیئر کا ڈیپارٹمنٹ ناکام رہا۔40 فیصد بچے جو غذائی قلت کا شکار ہیں۔سیلاب کے بعد۔ 20 ہزار اسکول تباہ ہوگئے۔ پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈرخرم شیر زمان نے کہا کہ کراچی میرا شہر ہے ،مجھے سندھ کی فکر کرنی ہے۔ہمارے بچے پڑھیں۔انہوں نے کہا کہ کرپشن میں سندھ کا محکمہ تعلیم پہلے نمبر پر آیا ہے۔یہ بربادی سیلاب سے پہلے آچکی تھی۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی نے کہا تھا کہ تعلیم ایمرجنسی لیکر آو¿ں گا ،میرے اسکول میں بچوں کو بہتر تعلیم نہیں مل رہی ہے۔یہ نظام کب تک اس طرح چلے گا۔اس موقع پرپی ٹی آئی نے ایوان سے واک آو¿ٹ کردیا۔صوبائی وزیر سردار شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی طرف سے پہلی مرتبہ یہ ہوا ہے۔شرح خواندگی پر تحریک التواآئی ہے۔ وزیر تعلیم نے کہا کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ آئی۔انہوں نے شعبہ تعلیم پر بات کی ہے۔ میں نے ان سے کہا آپ نے سروے کہاں سے کیا ہے ۔اسی رپورٹ میں کہا گیا سب سے زیادہ کرپشن پی ٹی آئی کے دور میں ہوئی ۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی تقریروں میں زبانی درازی تھی تجاویز نہیں تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی اساتذہ بھرتی ہوئے ہیں۔کوئی بھی سفارش نہیں ہوئی۔سردار شاہ نے کہا کہ ان کو بولنا آتا ہے کیا ہم کو بولنا نہیں آتا ہے ان کا ایوان سے بھاگنا ان کی پرانی روایت ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج میری بات نہیں سنی گئی ہے۔بعدازاںسندھ اسمبلی کا اجلاس برخاست کردیا گیا۔
سندھ اسمبلی