محمد علی جناح ؒ کا طرزسیاست و قیادت....(2)


یہ جان کر سب لوگ بہت خوش ہوئے کہ نوجوان محمد علی نے اپنے زیرک پن اور تحمل سے وہ کام کر دکھایا جسے خاندان کے بڑے بھی ناممکن سمجھ رہے تھے۔ دوسرے دن علی کے سسرال والے ہمارے گھر آ گئے اور باہمی رضامندی سے ہمارا کراچی واپس آنے کا پروگرام بھی فائنل ہو گیا ۔ اور پھر ہم خوشی خوشی دلہن کو لے کر کراچی آ گئے۔ محمد علی جناح کی ابتدائی حیات میں ان کی علمی کاوشوں اور عملی زندگی میں پیشہ ورانہ جد وجہد کا جائزہ لیا جائے یہ پہلو بڑا واضع طور پر سامنے آتا دکھائی دیتا ھے کہ فطرت خود کرتی ھے لالہ کی حنا بندی " 
 وہ لندن میں پہنچے تو وہاں موجود پونجا جناح کی گراہمس کمپنی کے آفس میں اپریٹس شپ کرتے اکثر سوچتے تھے کہ میں ایک ایسے کاروبار کے لیے تیار ہو رہا ہوں جو میری ذات کے ساتھ شروع ہوگا اور میرے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا۔یہ درست سہی کہ والد صاحب کے کاروبار کو وسعت دینے میں یہ اپریٹس شپ بڑی معاون ثابت ہو گی اور میں پیسہ بھی کما سکوں گا مگر مجھے کوئی ایسا کام کرنا چاہیے جس میں تسلسل ہو اور کاروبار سے زیادہ معاشرتی مفاد بھی ہو۔ 
 انہون نے تاریخ میں بڑے لوگوں کی سوانح عمریاں پڑھی تھیں جن سے انہوں نے جانا کہ ان ساب قائدین اور راہنماو¿ں نے پہلے قانون کا پختہ علم حاصل کیا تھا پھر وہ عوامی۔زندگی۔میں داخل ہوئے اور کامیابیاں پائیں اور ناموری بھی۔ انہیں معلوم ہوا کہ لندن میں لٹل گو سکیم ابھی جاری ھے اور اگلے سال یہ سکیم ختم کر دی جائے گی۔ محمد علی جناح کے لیے یہ ایک چانس تھا کہ وہ سکیم میں شامل ہو کر وکیل بن سکتے تھے۔لہذا انہوں نے یہ امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کیا اور وہ وکیل بن گئے۔ محمد علی جناح نے اپنے علم اور مشاہدے سے زمین پر انسانی کردار کا انوکھا خاکہ بنا رکھا تھا جس پر وہ عمل کر کے تسکین پاتے تھے۔ لنڈن میں جب وہ بیرسٹری تعلیم کے دوران ایک بار شیکسپیئر کا ڈرامہ دیکھنے گئے تو ایک کردار کے مکالمات پر تبصرہ کیا ۔ان کی ادائیگی خود کر کے دکھایا کہ۔ڈرامے کے کردار کو یوں ڈیلورکرنا زیادہ موثر ثابت ہوگا ۔ بغیر کسی آڈیشن کے محمد علی جناح کو تھیٹر میں کام کرنے کی پیش کش کر دی گئی۔ جناح صاحب نے کچھ دیر وہاں کام بھی کیا۔ بعین اسی طرح ان کا وکالت کرنے ، سیاست اور قیادت کرنے کا اسٹائل بھی معاصرین سے الگ انوکھا اور زیادہ موثر رہا ۔ محمد علی جناح کی سیاسی اصول پسندی اس قدر واضح اور موثر تھی۔ ان پر حریفوں نے تبصرے تو کئے مگر ان کی حقیقتوں کو جھٹلا نہ سکے۔ 
 12 جولائی 1940 کو مولانا ابوالکلام آزاد نے قائدِ اعظم کو ایک امتیازی بیان کے حوالے سے تار بھیجا کہ اور پوچھا کہ کیا مسلم لیگ مشترکہ کابینہ ( ہندو مسلم) میں واقعی دو قومی نظریہ سے کم کسی پوائنٹ پر رضامند نہ ہوگی۔قائد اعظم نے غصے میں مگر بڑے شائستہ انداز میں جواب بھیجا۔ قائد اعظم نے کہا میں آپ سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھتا چونکہ کانگرس ہندوو¿ں کی نمائندہ سیاسی جماعت ھے۔ 
 انہون نے اپنی خود غرضی کو چھپانے اور دنیا کو دھوکا دینے کی غرض سے آپ کو شو بوائے بنا رکھا ھے ۔ اپنی خودفریبی کے جال سے باہر نکلو ، اسلامی برتری و عظمت اپنی شناخت اور عزت نفس کی پاسداری میں تمہیں فورآ مستعفی ہو جانا چاہیے چونکہ آپ نہ ہندوو¿ں کے نمائندہ ہیں نہ ہی مسلمانوں کی نمائیندگی کرنےکا اختیار رکھتے ہیں۔ محمد علی جناح نہ صرف اپنی ذات میں خود دار اور غیور انسان تھے بلکہ وہ دوسرے انسانوں کو بھی بڑی محبت ، شفقت اور انسانی وقار سے ملتے۔ وہ اوروں کی عزت نفس کا بڑا خیال رکھنے والے قائد تھے۔ نمود نمائش سے انہیں بہت بیزاری ہوتی تھی۔ 
 مسلم یونیورسٹی آف علی گڑھ کے ڈاکٹر سر ضیاءالدین احمد ، جو 1937 سے کئی سال تک وائس چانسلر رہے انہوں نے 23 اپریل 1942 کو محمد علی جناح کو خط لکھا کہ یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کونسل نے گزشتہ اجلاس منعقدہ 12 اپریل 1943 میں آپ کو مسلم یونیورسٹی آف علی گڑھ کی طرف سے قانون کی اعزازی ڈگری دینے کا فیصلہ کیا ھے۔ مجھے اس سلسلے میں آپ کو باقاعدہ اطلاع دینے، تقریب کے انعقاد کی تاریخ اور دیگر تفصیلات طے کرنے کو کہا گیا ھے، جو میں بذریعہ خط کر رہا ہوں۔ محمد علی جناح نے جواب میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی ایگزیکٹو کونسل کا شکریہ ادا کرتے لکھا کہ میں سیدھا سا محمد علی ۔ہوں میں اپنے نام کے ساتھ کسی طرح کا لاحقہ پسند نہیں کرتا۔ وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ڈاکٹر ضیائ الدین احمد کی طرف سے بار بار کی درخواستوں کے باوجود ان کی اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری قبول کرنے پر راضی نہ ہوئے۔جناب زید اے سلہری اپنی کتاب مائی لیڈر میں لکھتے ہیں۔ :- 
 1946 میں قائد اعظم محمد علی جناح اور نواب زادہ لیاقت علی خاں برطانوی کابینہ سے مذاکرات کے سلسلے میں لندن پہنچے۔قائد اعظم کو لندن میں کلریجز ہوٹل
 میں اسی کمرے میں ٹھہرایا گیا تھا جہاں یونانی بادشاہ اپنی جلا وطنی کے زمانے میں جنگ عظیم میں ٹھہرا تھا ۔ برطانوی حکومت نے ایک کشادہ آرام دہ لیموزین گاڑی قائد اعظم کے استعمال کے لیے مختص کر رکھی تھی ( یہ محمد علی جناح کا سٹائل تھا اور خوش لباسی کے ساتھ ساتھ شخصیت کا رعب بھی تھا جس سے انگریز دبتے تھے)قائد اعظم نے سلہری صاحب سے پوچھا نماز جمعہ کس مسجد میں ادا کریں گے۔ انہیں بتایا گیا کہ " ایسٹ اینڈ مسجد میں". یہ ایسی مسجد ھے جس میں عام مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔ قائد اعظم یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔ جب نماز کے لیے مسجد میں پہنچے تو قائد اعظم پچھلی صفوں میں بیٹھ گئے ، خطبہ سنا اور نماز ادا کی۔ جب وہ باہر آئے تو ایک عقیدت مند نے آگے بڑھ کر ان کے جوتے انہیں پیش کرنے کی کوشش کی تو قائد اعظم نے انہیں محبت سے پکڑ لیا اور کہا ایسا مت کرو۔ اسی اثناء میں دوسرے شخص نے ان کے جوتے کے تسمے باندھنے کی کوشش کی انہوں نے برا مناتے ہوئے اسے بھی منع کر دیا اور کہا میں اسے اخلاقی طور پر صحیح نہیں سمجھتا۔یہ واقعی ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ھے جو محمد علی جناح کو مغرور اور متکبر شخصیت کہتے ہیں۔ اصولوں پر قائم رہنا محمد علی جناح کی شخصیت کا سب سے اعلیٰ وصف تھا ۔ ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کے اے ڈی سی بتاتے ہیں کہ وائسرائے لارڈ ماو¿نٹ بیٹن نے ایک پورا دن محمد علی جناح سے ہندوستانی مسائل کے ممکنہ حل اور قابل عمل فیصلوں کے لیے مختص کر رکھا تھا۔ لارڈ اپنا ہر حربہ اور انسانی داو¿ پیچ آزمانے کے بعد بھی محمد علی جناح کو اپنے شیشے میں اتارنے سے قاصر رہے تو بلبلا اٹھے اور مذاکرات وقت سے پہلے ختم کرنے کا اعلان کر دیا، اور کہا۔" آف یہ شخص تو برف کی مانند ٹھنڈے مزاج کا شخص ھے جسے کسی طرح کا لالچ و پیشکش اس کے مقام و ارادے سے پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔(ختم شد)

ای پیپر دی نیشن