مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب ....یہ کہاوت بظاہر خاصی پرانی ہے اس کے باوجود ان دونوں منطقوں کے درمیان پائے جانے والے بعض فکری اور ثقافتی تضادات دلچسپ کہانیوں کا جنم دیتے رہتے ہیں۔ مشرق کی تہذیب و شائستگی بعض اوقات مغرب میں یکسر دوسرے مفہوم میں دیکھی جاتی ہے اور مغرب کی عمومی روش اور بے تکلفی کو مشرق میں حقیقت سے دور الگ تھلگ معانی دیئے جاتے ہیں لہٰذا آج کل جب مشرقی ممالک کے طلباءحصول تعلیم کے لیے بعض مغربی ممالک کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں تو وہاں اصل نصاب تدریس شروع کرنے میں پہلے اکثر ثقافتی بعد دور کرنے کے لیے ابتدائی چند ہفتوں میں باہمی افہام و تفہیم اور ایک دوسرے کے سماجی رویوں اور تعلیمی نظام کو سمجھنے کے لیے تعارفی کورسز کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے تاکہ بعد ازاں فریقین کو کسی خاص پریشانی سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ ماضی قریب میں ایسے ہی ایک تعارفی پروگرام میں جو لسٹر کے قریبی ایک دیہی ریستوران میں ترتیب دیا گیا تھا ایک جرمن خاتون نے قدرے بے تکلفی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک کا فلاں وزیرخارجہ اس قدر جھوٹ کیوں بولتا ہے؟ ہم نے حیران ہو کر اس خاتون سے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ وہ نیک سیرت اور نرم گفتار شخص واقعی جھوٹ بولتا ہے اور یہ کہ آپ کسی خاص مسئلے کے بارے میں اگر مزید وضاحت سے بات کریں تو شاید ہمارے لیے اس کے بارے میں رائے دینا آسان ہو، فرمانے لگیں، ابھی کل ہی میں بی بی سی سن رہی تھی جس میں ان صاحب سے صحافی سوالات کر رہے تھے اور وہ کسی بھی صحافی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دینے کی بجائے مسلسل نظریں جھکائے جوابات دینے کی کوشش کر رہے تھے چونکہ ہمارے ہان اگر آپ کا مخاطب آپ سے نظر ملا کر آپ کی بات کا جواب نہیں دیتا تو اس کے بارے میں عام تاثر یہی ہوتا ہے کہ وہ آپ سے یا تو کچھ چھپا رہا ہے یا صریح جھوٹ بول رہا ہے لہٰذا میرا اس وزیر خارجہ کے بارے میں یہی تاثر ہے کہ وہ سچ سے گریزاں تھا۔ انہی دنوں اٹلی کی معروف صحافی اوریانہ فلاسی کی کتاب (An interview with History) تاریخ کا انٹرویو چھپی تھی جس میں اس نے عصر حاضر کے عظیم مذہبی رہنما سے اپنے انٹرویو کی تفصیلات درج کیں اور لکھا تھا کہ اس رہنما کے پیروکاروں نے کس طرح اسے پورے طرح کپڑے میں لپیٹ کر گویا پورا پردہ کراتے ہوئے رہنما کے سامنے بیٹھنے پر مجبور کیا تھا اور جونہی اس نے پردے (کپڑے کو) قدرے ڈھیلا کرتے ہوئے سیدھا ہو کربیٹھنے کی کوشش کی تھی اس کے مخاطب انٹرویو ختم کر کے اپنے حجرے میں چلے گئے جب ہم نے اس خاتون کے چبھتے ہوئے سوالوں اور ان واقعات پر غور کیا تو پتہ چلاکہ چونکہ مشرقی اطوار یا اسلامی تہذیبی رویوں میں اپنےبڑے یا محترم شخص سے آنکھیں ملا کر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے اور ہمارے مذہبی مدرسوں اور خانقاہی آداب کے پیش نظر طلبہ کو ایسی ہی تربیت دی جاتی ہے لہٰذا اگر کوئی شخص آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرتا تو جہاں ہم اسے سعادت مندی اور دوسروں کو احترام دینے سے تعبیر کرتے ہیں اہل مغرب کے نزدیک یہ روش یکسر مختلف معانی رکھتی ہے اس طرح بزرگوں کی محفل میں بیٹھنے اور خصوصاً اگر نشست فرشی ہو پاو¿ں پسارنے کی بجائے ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھنا شائستگی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اگر ذکر و فکر کی فرشی نشست ہو تو اکثر احباب دو زانو ہو کر بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور یہی تربیت اکثر مذہبی رہنما اپنے پیروکاروں کی کرتے ہیں۔ اب چونکہ پہلے واقعہ میں جس شخصیت کے بارے میں جرمن خاتون نے غلط تاثر قائم کیا تھا وہ بھی دراصل ایسے ہی دینی رہنما کے حلقہ ارادت سے تعلق رکھتے تھے جہاں دیدے پھاڑ کر دوسروں سے بے تکلفی کا اظہار روا نہیں سمجھا جاتا اور جس رہنما سے خاتون صحافی انٹرویو کر رہی تھیں ان کے ہاں تو مدت العمر ذکر و فکر اور وعظ و نصیحت کی نشست فرشی ہوتی تھی اور حق متلاشی ان کے سامنے ہمیشہ دو زانو ہو کر بیٹھنے میں ہی اپنی سعادت مندی سمجھتے تھے لہٰذا اس انداز نشست کے بارے میں خاتون صحافی نے انگریزی کا لفظ (Prostrate) استعمال کیا تھا تاہم جب ان سے انٹرویو کی تفصیلات مع جملہ مصالحہ جات مغرب کے بعض اخبارات و رسائل میں شائع ہوئیں تو اس کے لیے کئی دوسری ایسی ترکیبیں استعمال کی گئیں جن سے احسات ہوتا تھا شاید مذکورہ خاتون کو اس انداز پر مجبور کیا گیا ہو بہرحال بڑی مشکل سے مختلف وضاحتیں کرنے اور مشرق و مغرب کے ثقافتی اختلافات کی مثالیں دے کر اس خاتون کو مطمئن کرنے کی کوشش کی، انہی دنوں مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے بارے میں کتاب میرا بھائی (My Brother) بھی شائع ہوئی تھی۔ جس میں انہوں نے قائداعظم کے قیام لندن سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے جب قائداعظم لندن میں تھے تو ان کا قیام مسز ایف ای ڈریک کے ہاں بطور پیننگ گیسٹ تھا جو بڑی نرم دل خاتون تھیں اور محمد علی جناح کو اپنے بیٹوں کی طرح عزیز رکھتی تھیں ان کا خاندان خاصا بڑا تھا اور ان کی ایک بیٹی قائداعظم ہی کی عمر کی تھی جو بڑی جاذب اور پرکشش شخصیت کی مالک تھیں انہیں مخلوط پارٹیاں کرنے کا جنون تھا اور اکثر اوقات قائداعظم سے بھی والہانہ لگاو¿ کا اظہار کرتیں مگر قائداعظم نے ہمیشہ اسے فاصلے ہر ہی رکھا ان پارٹیوں کے دوران وہ اکثر ایسی خصوصی مغربی طرز کی چھوٹی موٹی کھیلوں کا بھی اہتمام کرتیں جن میں ہارنے والے کی سزا عجیب ہوتی تھیں لیکن اس کے ہزار اصرار کے باوجود قائداعظم ایسی کھیلوں سے گریز کرتے تاہم ایک دفعہ جب کرسمس کا تہوار منایا جا رہا تھا اور قائداعظم بے خبری میں اس دروازے کے درمیان کھڑے تھے جس کی چوکھٹ پر امر بیل کی نرم و نازک کونپلیں ترازو ہوئی ہوئیں تھیں کہ مس ڈریک نے انہیں آلیا ۔ واضح رہے کہ مغربی معاشرتی رویوں کے مطابق اگر کوئی کسی دوسرے کو ایسی بیل کے نیچے آپکڑے تو اسے دوسروں کا بوسہ لینے کی اجازت ہوتی ہے اور اگر دوسرا گریزاں ہو تو اسے خلاف تہذیب سمجھا جاتا ہے تاہم قائداعظم نے اس موقع پر خاتون کو نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا کہ ہماری تہذیبی قدروں کے مطابق ایسی حرکت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی اس کی اجازت ہے یوں اس سے معذرت کرلی اور ان کی اس ایک معذرت نے قائداعظم کو اس کی عشوہ طرازیوں سے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔ سو ہم نے مشرق و مغرب کے تہذیبی رویوں اور اخلاقی قدروں اسکے بعد اور تضاد کو مزید واضح کرنے کے لیے اس جرمن خاتون کو یہ اور اس طرح کی دیگر کتب دیکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے اجازت چاہی اور وہ بھی بظاہرمطمئن ہی نظر آ رہی تھیں مگر مشرق و مغرب کے تہذیبی رویوں میں آپ جتنا زیادہ کھوج لگاتے جائیں گے یہ اتنے ہی پھیلتے اور بڑھتے نظر آئیں گے تاکہ آپ فارسی کے اس شعر کے مصداق دوسرے کے کلچر سے اس طرح ہم آہنگ نہ ہو جائیں کہ من و تو کا فرق نہ رہے۔
من تو شدم، تو من شدی من جاں شدم، تو تن شدی
تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
اوریانہ کی دعوت اور قائداعظمؒ
Dec 21, 2022