مشرقی اور مغربی پاکستان کا اگر تجزیہ کیا جائے کہ آخر وہ کون سی وجوہ تھیں جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان کے لوگ جو پاکستان سے بے انتہاءمحبت کرتے تھے آخر وہ محبت ختم کرنے پر کیوں مجبور ہوئے۔ بنگالی قوم میں یہ پروپیگنڈا بھی خوب کیا گیا کہ بنگلہ دیش کی قومی پیداوار پٹ سن کا جو زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے اس کا95فیصد حصہ مغربی پاکستان کی تعمیر وترقی پر خرچ ہو رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ بنگلہ دیش کی ٪54 آبادی پاکستان کے 15فیصد رقبے پر آباد تھی اور مغربی پاکستان کی ٪44 آبادی ٪85 رقبے پر آباد تھی اس لیے بنگالی قوم محسوس کر رہی تھی وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو رہی ۔بنگالی قوم کا ایک مطالبہ اس کے علاوہ بھی تھا کہ اُردو کے ساتھ بنگالی زبان کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے لیکن مغربی پاکستان کے صاحب اقتدار حلقوں نے ان امور کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ یوں بنگالی قوم کے اندر عدم تحفظ کا بھی احساس تھا کہ ہمارا دفاع مغربی پاکستان سے فورسز آکر نہیں کر سکتیںحالانکہ م صاحبان اقتدار ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ ہم مغربی پاکستان سے بھارت کو کنٹرول کریں گے اور وہ مشرقی پاکستان پر کبھی حملہ نہ کر سکے گا۔
یادش بخیر ....ایک طرف یہ اندرونی خلفشارتھا تو دوسری طرف عالمی طاقتوں نے بھی فیصلہ کیا ہوا تھا کہ پاکستان کے دونوں حصوں کو علیحدہ کرنا ہے ، ایک طرف بنگال میں ڈیڑھ کروڑ ہندو جو تعلیمی اداروں اور اہم پوسٹوں پر کام کر رہے تھے انھوں نے اپنا کردار ادا کیا تعلیمی اور سرکاری اداروں میں نفرت کو خوب بھڑکایا . مکتی باہنی تحریک کو بھارت کی سپورٹ تھی جو تعلیمی اداروں اور سر کاری اداروں میں نفرت پھیلانے میں مصروف عمل تھی۔ مارچ 1971 میں بھارت کی پارلیمنٹ میں اندرا گاندھی نے ایک قرار داد پیش کی کہ ہم بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کی مکمل حمایت کریں گے قرارداد کو حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر منظور کیا اس سے یہ بات بالکل واضح تھی کہ بھارت بنگلہ دیش میں واضح مداخلت کر رہا ہے ۔ چوتھی طرف مغربی پاکستان کی ناعاقبت اندیش قیادت بار بار اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرتی رہی اور ساتھ ہی جنرل یحییٰ خان نے فوجی آپریشن کا فیصلہ کر دیا حالانکہ ان کو یہ بات معلوم تھی کہ ایسے مقامات پر فوجی آپریشن کا کامیاب کرنا کتنا مشکل کام تھا۔ نومبر 1971 میںانڈیا نے اپنی فورسز اندر داخل کر دیں۔ یہ تھیں وہ وجوہات جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ۔ اسی روز اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ آج ہم نے دوقومی نظریہ کو خلیج بنگال میں دفن کر دیا۔
مغربی دنیا کو اسلامی دنیا سے ہمیشہ ایک ہی خوف رہا ہے کہ جب بھی اسلامی دنیا ترقی کر ے گی یا اسلامی دنیا میں جمہوریت ترقی کرے تو وہ اپنے ساتھ مذہبیت یعنی اسلامائزیشن کو لے کر آئے گی۔یہ بات ولفریڈکینٹ ویل سمتھ نے اپنی دو کتابوں میں ” اسلام تاریخ جدید کے آئینے میں “ اور ” پاکستان بطور اسلامی ریاست “ میں لکھی۔ یہی بات 60 کے عشرے میں ڈاکٹر ہنری کسنجر بھی اپنی تقاریر میں کہیں تھی۔ عرب دنیا میں جمہوریت کے آنے سے اسلام کا سیاسی کردار مضبوط ہو گا۔اس وجہ سے عرب ریاستوں کو تقسیم کیا گیا اور مسلم دنیا میں نسلی اور فرقہ واریت کو ہمیشہ عام کیا گیا اور اسلامی تحریکات کو کچلنے کی پالیسی پر عمل کیا گیا۔ کبھی اسلامی دنیا کو معاشی لحاظ سے مستحکم نہیں ہونے دیا گیا۔
آج سانحہ بنگلہ دیش کو 52 سال ہو گئے لیکن ہم نے اس سے کیا سبق سیکھا کیا ان 52 سال میں ہم نے اپنی قومی ترقی میں اضافہ کیا ۔ قومی اداروں میں ترقی ہوئی یا ہم نے قوم کو غربت کی لکیر سے باہر نکالنے کی کوشش کی یا پھر ہم نے داخلی اور خارجی امور میں ترقی کی۔ کیا ملک میں امن وامان کے حالات بہتر ہوئے۔ ان تمام سوالوں کے جوابات نفی میں ملتے ہیں۔ آج اکثر ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، معاشی عدم استحکام ہے۔خارجہ امور میں مغربی طاقتوںکی مداخلت بہت بڑھ گئی ہے۔ وفاق اور صوبہ جات میں کشمکش چل رہی ہے ۔ ان تمام حالات میں دیکھا جائے تو اس وقت ملک کو چند ایسے خطرات لاحق ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہ تھے۔آج ملک میں معاشی عدم استحکام ہے ملک میں قومی پیداوار کا ٪85 حصہ سود اور قرضوں میں ادا کیا جا رہا ہے ، ملک 127 بلین ڈالر سے زائد قرضوں کا مقروض ہو چکا ہے ۔شرح سود میں روز بروز اضافہ کیا جا رہا ہے۔دوسری طرف مغربی طاقتیں اور قادیانی لابیاں اس کوشش میں ہیں کہ ملک کے دستور کو ہی اڑا دیا جائے تاکہ قرارداد ِ مقاصد، حاکمیت اعلیٰ ، ناموس رسالت، حرمت سود اور قادیانوں کو کافر قرار دینے والی شقوں کا خاتمہ ہو جائے یعنی نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ ملک کو معاشی لحاظ سے اتنا عدم استحکام کا شکار کر دیا جائے تاکہ ملک میں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ جائے ملک میں عدم استحکام پیدا ہو جو پولیس اور فوج کے کنٹرول سے باہر ہو جائے۔
سقوط ڈھاکہ: ہم نے ماضی سے کوئی سبق سیکھا ؟
Dec 21, 2022