چھ ماہ ترکی کے دورے کے بعد واپسی ہوئی ابھی تک ترک شہروں کی صفائی اور نظم و ضبط کی جھلک دل و دماغ میں ہے ۔ جب میں اسلام آباد پہنچی تو ایئرپورٹ سے گھر آتے ہوئے جابجا گندگی کے ڈھیر، بے ہنگم ٹریفک کافی حد تک دیکھی ۔گھر میں آکر بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ اسکے علاوہ تھی ۔ھمارے شہری ہر چیز پر ٹیکس دینے،تمام اشیاء ضرورت مہنگی خریدنے اور بھاری یوٹیلٹی بلز دینے کے باوجود گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سہنے پر مجبور ہیں۔جبکہ آج دنیا اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ جہاں کچرے کو تلف کرنے کا طریقہ کار بھی سائنسی اصولوں کے تحت طے کیا جاچکا ہے۔ تھوڑی سی غفلت موسمی تبدیلی پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے ۔جبکہ ھمارے ملک میں کچھ بہتری نظر نہیں آتی ۔ پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعہ صوبوں کو پابند کیا گیا ہے کہ کہ صوبے خود بجلی بنائیں گے ۔ سول انتظامیہ چاہے تو کچرے کے ذریعے کافی حد تک بجلی کی پیداوار حاصل کرسکتی ہے۔لیکن کرے کون؟شہروں اور دیہات میں صفائی اور کچرے کو تلف کرنے کے حوالے سے سائنسی بنیادوں پر واضح حکمت عملی مرتب کرنے اور شہریوں کو تربیت دینے کی سخت ضرورت ہے۔ صرف درخت لگانے سے بات نہیں بنے گی شہری حکومتوں کی جانب سے بھی کچرے کی صفائی کے لئے کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی، کراچی،پشاور اور راولپنڈی سمیت پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی نکاسی آب کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے تباہی شہریوں کا مقدر بن رہی ہے۔ سیوریج سسٹم کی ناکامی کی وجہ سے معمولی بارش کے بعد ایک اذیت ناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔سیوریج سسٹم کسی بھی شہر کے لیے بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے۔ اس سہولت کے موجود نہ ہونے سے روزمرہ استعمال ہونے والا پانی اور بارش کا اضافی پانی شہری علاقوں میں تباہی اور بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ جیساکہ گزشتہ بارشوں میں سیلابی صورتحال دیکھنے کو ملی ۔ایسا لگتا ھے کہ ہمارا سیوریج کا نظام موہنجوڈارو سے بھی پیچھے چلا گیا ہے۔گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ بھی وبال جان بن چکی ہے۔ گیس بحران کی وجہ حکومت کا بروقت قدم نہ اٹھانا ہے جبکہ ترک حکومت روس سے گیس لے کر عوام کو مکمل سہولت پہنچا رہی ہے ۔ ہمارے ملک میں گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں ، لیکن امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے اور سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے یہ دریافت تا حال نہیں ہو سکی۔
حکومت کو چاہیے کہ بجلی کے پاور پلانٹس کو گیس کی بجائے کوئلے پر چلائے کیونکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں کوئلے کی قیمت بہت نیچے آ چکی ہے مہنگی اور درآمدی گیس کے بجائے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے سے بجلی کی پیداواری لاگت بھی کم ہوگی اور بچ جانے والی گیس دوسرے شعبوں میں کام آ سکے گی جس سے گیس بحران میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ ہم واقعی ترقی یافتہ مہذب قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں نہ صرف صفائی بلکہ اپنی سوچ اور رویوں پر بھی کام کرنا ہوگا ۔اگر گھر کی صفائی اہمیت رکھتی ہے تو یہ گلیاں،محلے کی سڑکیں سب سے بڑھ کر یہ ملک اسے بھی صاف رکھنا اہم ہے۔اس ضمن میں علاقہ مکینوں کے بعد اہم کردار بلدیاتی اداروں اور کنٹونمنٹ کا ہے ۔بلدیاتی اسٹاف تو ھے نہیں اور کنٹونمنٹ کا اسٹاف باقاعدگی سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کے نظام کی نگرانی نہیں کرتا۔اس وقت پوری دنیا میں بلدیاتی نظام مضبوط ہونے کی وجہ سے اس قسم کے مسائل دیکھنے کو نہیں ملتے مگر پاکستان میں بلدیاتی نظام ہی ناپید ھے۔ ایک سروے کے مطابق اکثر گھروں میں گیس کمپریسر موجود ھیں ۔گیس کمپریسر لگانا قانون اور شرعا جائز نہیں اس لیے کہ اس سے دوسرے لوگوں کو تکلیف اور ضرر لاحق ہوتا ہے اور آ س پاس کے لوگوں کو گیس کی سپلائی متاثر ہوتی ہے۔اس کی روک تھام اور چیکنگ کی بھی کسی کو کوئی پرواہ نہیں جب کہ آئے دن اس کے باعث حادثات رونما ھوتے رہتے ہیں۔ان تمام مسائل کو دیکھتے ہوئے کیا اب بھی ووٹرز کی آنکھیں نہیں کھلتی کہ حکومت کی باگ ڈور ان لوگوں کے حوالے کریں جنھیں عوامی مسائل کا احساس اور ادراک نہیں ہے ۔جماعت اسلامی پاکستان کی دیانت دار قیادت میدان عمل میں موجود ھے۔
عوام نے خوشحالی کے نام پر ہر سیاسی پارٹی کو آزما لیا ھے،سوائے جماعت کے .... جماعت اسلامی کے دو مئیر کراچی میں گڈ گورننس کی اعلیٰ مثال قائم کرچکے ہیں، ترک ریاست کی ترقی کی وجوہ میں سب سے اہم وجہ دیانت دار قیادت اور بلدیاتی نظام کے ذریعے شہری حکومتوں کے پاس اختیارات کا ھونا ھے۔
کیا ہم یونہی روتے رہیں گے؟
Dec 21, 2022