اَن پڑھ فردکی بجائے پڑھا لکھا فرد‘ زیادہ اچھے فیصلے لے سکتا ہے
محکمہ سکول ایجوکیشن کی پہلی خاتون سپیشل سیکرٹری ’’کلثوم ثاقب‘‘ کا نوائے وقت کو خصوصی انٹرویو
کوشش ہے کہ صوبے بھر کے اساتذہ کی پروموشن کے لیے شیڈول مرتب کیا جائے
ایکسی لیٹڈ پروگرام کے تحت بچوں کو تعلیم کیساتھ ساتھ ہنر یافتہ بھی بنایا جائے گا
عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
کلثوم ثاقب ‘مقابلے کا امتحان دینے والوں خاص طور پرخواتین کیلئے کامیابی کا ایک رول ماڈل سمجھی جاتی ہیں ، نہ صرف ایک رول ماڈل، بلکہ کلثوم ثاقب بیوروکریسی کی دنیا میں اپنے فرائض منصبی خوش اسلوبی سے سرانجام دے کر پاکستانی اداروں کو ترقی اور کامیابی کی طرف گامزن کرتا ہوا ایک ایسا نام ہے جو اکثر بیوروکریٹس کے عام متکبرانہ انداز و اطوار کے برعکس شہریوں کی عزت و احترام، منہ بولتی کارکردگی اور حسن اخلاق کے زیور سے آراستہ اپنی ذات میں ایک ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے انہیں مختلف محکموں میں اپنی بہترین اور قابل ستائش پرفارمنس کے سبب یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ یہ محکمہ سکول ایجوکیشن کی پہلی خاتون سپیشل سیکرٹری تعینات ہوئی ہیں۔
کلثوم ثاقب پاکستان ایڈمنسٹریٹوسروس سے تعلق رکھتی ہیں، جنہوں نے ضلعی حکومتوں، لٹریسی ڈیپارٹمنٹ،ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ،پنجاب گورنمنٹ ہائوسنگ فائونڈیشن، ٹی ڈی سی پی، محکمہ سوشل سکیورٹی کے ادارے پیسی اور محکمہ اینٹی کرپشن جیسے سخت جان سمجھے جانے والے اداروں میں بھی بہترین کارکردگی دکھائی۔ یہ پنجاب میں قائم ہونے والے ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کی پہلی ایڈیشنل سیکرٹری بھی رہیں۔گزشتہ دنوں انہوں نے نوائے وقت کے قارئین کیلئے ہمارے ساتھ محکمہ سکول ایجوکیشن کے انتظامی معاملات سے متعلق خصوصی گفتگو کی، جو آپ کی نذر ہے۔
نوائے وقت : بطور سپیشل سیکرٹری سکول ایجوکیشن کون کون سے مسائل حل کرنے کی جانب توجہ مرکوز ہے؟
کلثوم ثاقب:افرادی قوت اور سروسز کے لحاظ سے ہمارا ادارہ پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ صوبے بھر کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔جہاںاتنے سارے لوگ اکھٹے کام کر رہے ہوں وہاں مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔
ایک اہم مسئلہ ہمیں یہ در پیش ہے کہ ابھی بھی بہت سارے بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔مجھے یہ چیلنج درپیش ہے کہ ان بچوں کو کیسے سکولز کی جانب لایا جائے۔یہ بچے وہ ہیں جو 9 سے 16 سال کی عمر کے ہیں۔ اگر معاملے کو دور اندیشی سے دیکھا جائے تو یہی بچے کچھ سالوں کے بعد نوجوان آبادی کا بہت بڑا حصہ ہوں گے۔یعنی کہ ان بچوں کو لازمی طور پر تعلیم ملنی چاہیے۔یہ تعلیم یافتہ ہوں گے تو اَن پڑھ انسان کی بجائے بطور پڑھے لکھے انسان کے یہ اپنے معاملات زیادہ خوش اسلوبی سے سر انجام دے پائے گا۔اس لیے ہمارا پلان یہ ہے کہ بجائے یہ بچے سکول آئیں، ہم سکول ان تک لے جائیں گے۔اس پروگرام کا نام ایکسی لیٹڈ پروگرام ہے۔ جس کے تحت ان بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سیکھایا جائے گا۔ ایسا ہنر جو انھیں سکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد باعزت روزگار بھی دے سکے۔
اس کے علاوہ ہم نے آفٹر نون سکول پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت صبح کے اوقات میں اگر کوئی پرائمری سکول ہے تو وہ آفٹر نون میں ایلمنٹری سکول بن جاتا ہے اور اگر کوئی ایلمنٹری سکول ہے تو وہ آفٹر نون میں ہائیر سکول بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ بچے اور بچیاں جو اپنے ماں باپ کیساتھ صبح کے اوقات میں کوئی نہ کوئی کام کرتے ہیں ، وہ دوپہر کے بعد فارغ ہوں تو اس سکول میں پڑھنے آسکتے ہیں۔ان سکولوں کے اوقات کار تقریبا تین سے چار گھنٹے ہے۔ہماری کوشش یہی ہے کہ جو اساتذہ جو پہلے سے سکول میں پڑھا رہے ہیں، وہ اگر آفٹر نون ٹائم پر بھی پڑھانا چاہیں تو سیکنڈ شفٹ میں بھی پڑھا سکتے ہیں۔اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہم سیکنڈ شفٹ کے لیے ا لگ سے اساتذہ ہائیر کر کے یہ سکول چلا رہے ہیں۔یہ پروگرام کچھ عرصہ پہلے شروع ہوا ہے اور اللہ کے کرم سے اب تک ڈھائی لاکھ بچے اس سے مستفید ہو رہے ہیں، سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ان سکولوں میں سب سے زیادہ بچیاں پڑ ھ رہی ہیں۔ان ڈھائی لاکھ بچوں میں 70% بچیاں ہیں۔ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ اس پروگرام کے لیے ہم نئی عمارتیں نہیں بنا رہے بلکہ پرانی عمارتوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ اس طرح ہمارا جو بجٹ بلڈنگز بنانے میں صرف ہونا تھا وہی بجٹ ہم کاپی، کتابوں میں لگا رہے ہیں۔ایک اور پروجیکٹ ہے جس میں ہم کام کر رہے ہیں وہ یہ کہ ایسے بچے جو پرائیوٹ سکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن مہنگی کتابیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ان کے لیے معیاری اور سستے داموں کتاب مارکیٹ میں میسر ہو۔
نوائے وقت :پنجاب بھر میں بڑھتی سموگ کے پیش نظر سکولوں کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں؟
کلثوم ثاقب:جمعہ اور ہفتہ کی چھٹیوں سے قبل ہم نے احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایات جاری کر دیں تھیں۔ابھی امتحانات کا سلسلہ چل رہا ہے، جیسے ہی امتحانات اختتام پذیر ہوتے ہیں تو سردیوں کی چھٹیوں کا آغاز بھی ہو جائے گا۔امید ہے کے دسمبر کے آخر تک سموگ کافی حد تک کم ہو جائے گی۔
نوائے وقت:کئی ہزار اساتذہ عرصہ دراز سے محکمانہ ترقیاں نہ ہونے پر خائف ہیں۔اس مسئلے کوکیسے حل کیا جارہا ہے؟
کلثوم ثاقب:اس مسئلے سے متعلق ایک بیک گرائونڈ شیئر کرنا چاہتی ہوں۔اس ادارے میں دو سال قبل بھی مجھے کام کرنے کا موقع ملا تھا۔اس وقت میرے پاس ایڈیشنل سیکرٹری سکول کا چار ج تھا۔مجھے یاد ہے کہ جس دن میں نے چارج لیا اس دن جتنے بھی لوگ مجھ سے ملے ان سب کا مطالبہ پروموشن تھا۔اس وقت سینیورٹی لسٹ کو ری فریم کیا،پندرہ دن کے اندر منتظر اساتذہ کو کلیئر کیا گیا۔اس وقت جہاں جہاںپروموشنز التواء ہیں ان کے لیے ڈی پی ایز کے دو اداروں کو میں نے کہا ہوا ہے۔میری کوشش ے کہ انشاء اللہ پروموشنز کے کلینڈر بنائے جائیں۔ پروموشن بورڈ اپنے وقت پر ہوں، البتہ اس میں نمائندے کتنے ہوں یا کاغذ کتنے لوگ جمع کر واتے ہیں یہ الگ مسئلہ ہے۔ لیکن پروموشن بورڈ وقت پر ہونا چاہیے ۔
نوائے وقت: سرکاری سکولز میں معیار تعلیم کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟
کلثوم ثاقب:معیار کے اندر سب سے پہلے سکول کی بلڈنگ آتی ہے کہ جہاں بچوں کو بنیادی سہولیات میسر ہوں، کلاس رومز ، واش روم، کھیلنے کی جگہ، چار دیواری میسر ہو۔ ساتھ ہی ساتھ بیٹھنے کا مناسب انتظام ہو۔ اس پر پچھلے چار سال میں سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے بہت کام کیا ہے۔اور ایسے سکول جہاں سہولیات کا فقدان تھا وہاں پر تقریبا نوے فیصد سکول اب کلیئر ہو چکے ہیں۔ البتہ سیلاب کے بعد کی صورتحال میں جو سکول متاثر ہوئے ہیں ان کی بحالی کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔اس علاوہ معیار تعلیم میں طریقہ تدریس بھی اہم ہے کہ آپ بچوں کو جو پڑھا رہے ہیں اسے بچہ کتنا سمجھ پا رہا ہے، کیا اس پر چل کر بچہ ایک اچھا انسان بن پائے گا؟اس کے لیے نصاب میںفائدہ مند تبدیلیاں کی گئی ہیں۔یکساں نصاب تعلیم نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔یعنی معیار کے نکات کی نشاندہی ہو گئی ہے کہ ہمارے بچوں کو یہ یہ باتیں معلوم ہونی چاہیے۔ٹیچر کی قابلیت بھی اہم سوال ہے۔ اگر آپ ٹیچر کی ٹریننگ باقاعدگی سے کروارہے ہیں تواس طرح بھی اس کی صلاحیتوں میں مزیداضافہ ہوتا ہے۔
ہمارا ٹریننگ کا ادارہ قائد اور پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ دونوں مل کر اساتذہ کی ٹریننگ کا کام کر رہے ہیں۔چونکہ پنجاب ایگزامی نیشن کمیشن بچوں کو امتحان لیتا ہے تو ان کے پاس فگرز موجود ہیں کہ بچے کس مضمون میں اچھے ہیں اور کس مضمون میںان کی کارکردگی خراب ہے۔اس طرح ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہم نے اساتذہ کی ٹریننگ اب کیسی کرنی ہے۔
نوائے وقت:بطور خاتون‘ پروفیشل زندگی اور گھریلو معاملات ایک ساتھ کیسے لے کر چلتی ہیں؟
کلثوم ثاقب:بہت آسان ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ آپ صرف یہ سوچیں کہ آپ نے تمام معاملات ایک ساتھ لے کر چلنے ہیں۔آپ اپنے اوپر پروفشنل ذمہ داریاں اتنی نہ طاری کریں کہ اس سے آپ کا گھر نظر انداز ہو اور نہ ہی گھریلو معاملات کو اتنا خود پر سوار کر لیں کہ اس کا اثر آپ کی پروفشنل لائف پر ہو۔کوشش کریں کہ آج کا کام کل پر نہ ڈالیں۔
میری کوشش ہوتی ہے کہ جس دن کا کام ہے اسی دن پورا کر لیا جائے، اگلے دن پر نہ چھوڑا جائے۔مجھے یہ لگتا ہے کہ کچھ کریڈٹ اپنے گھر والوں کو بھی دینا چاہیے۔میں اپنے شوہر اور بچوں کی سپورٹ سے آگے آئی۔میرے بچے میری جاب کیساتھ پلے ہیں۔ اب بڑے ہوگئے ہیں لیکن جب میں نے کام کا آغاز کیا تب بہت چھوٹے تھے۔اکثر میرے ساتھ دفتر آتے تھے۔ میں نے کبھی اس بات پر عار محسوس نہیں کی۔مجھے ان کی سمجھ نہیں آتی جو کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچے دفتر ساتھ نہیں لاتے۔ اگر آپ کے بچے کام میں دخل نہیں دے رہے اور آپ اپنا کام اچھی طرح کررہے ہیں تو میرے خیال سے بچوں کو دفتر ساتھ لانے میں کوئی مزائقہ نہیں ہے۔