متوقع انتخابات اور ہائی کمیشن میں کرسمس تقریب  

وزارت عظمیٰ کے منصب پر تین مرتبہ فائز رہنے والے محمد نوازشریف کی لندن میں پلیٹلیٹس علاج کے بعد وطن واپسی اپنے اوپر قائم تمام مقدمات سے باعزت بری اور وطن عزیزپہنچنے کے فوری بعد انہیں ملنے والے خصوصی پروٹوکول کے باوجود ملک کی سیاسی صورتحال میں وہ گہما گہمی نظر نہیں آرہی جو الیکشن کے موقع پر اکثر ہمارے ہاں دیکھی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس حتمی فیصلے کے بعد کہ قومی انتخابات 8 فروری 2024ء کو ہونے جا رہے ہیں‘ مگر حیرت کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی اس تاریخ کے باوجود ملک کی بیشتر چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں اور انکے کارکنان کے سیاسی جذبہ میں وہ ’’پھڑک ‘‘ نظرنہیں آرہی جو ایسے مواقع پر ووٹروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو مبینہ طور پر دیئے گئے 75 ارب روپے اس بات کا غماز ہیں کہ انتخابات واقعی اب ہونے جا رہے ہیں۔ اس طرح انتخابی سرگرمیوں کا آغاز اور انتخاب کی تاریخ کا سادہ سا اگر حساب لگایا جائے تو جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں‘ انتخابات میں فقط 46 دن باقی رہ گئے ہیں۔ مجموعی سیاسی پارٹیوں کی انتخابی مہم کا اگر جائزہ لیا جائے تو مسلم لیگ (نون)‘ پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کی بعض جماعتوں سمیت مسلم لیگ (قاف)‘ مسلم لیگ (جونیجو) اور کسی حد تک تحرک انصاف باضابطہ طور پر اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر چکی ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے مراحل بھی طے کئے جا رہے ہیں مگر جن امیدواروں کو (نون) کے ٹکٹ مل چکے اور جن امیدواروں کا قائد مسلم لیگ محمد نوازشریف خود انٹرویو کر چکے‘ انہوں نے اپنی پیشگی کامیابی دیکھتے ہوئے ’’انشاء اللہ رکن صوبائی اسمبلی اور انشاء اللہ رکن قومی اسمبلی‘‘ کے واضح الفاظ اپنے اشتہاروں میں لکھنے شروع کر دیئے ہیں۔ اسی طرح ملک کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے قائد مسلم لیگ محمد نوازشریف کے نام کے ساتھ بھی انتخابات سے 46 دن قبل ہی ’’انشاء اللہ وزیراعظم‘‘ لکھا جا رہا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ نوازشریف صاحب چوتھی مرتبہ وزیراعظم کا غیرمعمولی اعزاز حاصل کرنے جا رہے ہیں۔ 
اس سلسلہ میں مسلم لیگ (ضیاء الحق) کے سربراہ اعجازالحق سے اگلے روز جب بات ہوئی تو انہوں نے اپنے تیس سالہ سیاسی تجربہ کی روشنی میں جواب ایک شعر میں دیا۔ شعر کیا تھا‘ چھوڑیں اسے‘ مفہوم یہ تھا کہ قومی انتخابات کے میدان میں بڑی سیاسی پارٹیوں کا جب امیدوار ہی سامنے نہ ہو اور اس سے بھی بڑی قومی بدنصیبی کہ انتخابی عمل سے قبل ہی جب کسی امیدوار کو اپنے وزیراعظم بننے کا علم ہو جائے تو ایسے انتخابات کا پھر وجود کیا۔ مگر ان حالات کے باوجود بھی آپ اور آپکی پارٹی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کیا تیار ہے؟ میں نے پوچھا۔ بالکل ہماری جماعت تو تیار ہے مگر ابھی تک وہ انتخابی گہما گہمی… کارنر اور تھڑے کی میٹنگیں اور اپنی اپنی پارٹیوں نے حق میں کھل کر جشن منانے کا سلسلہ نظر نہیں آرہا جو ایسے موقعوں پر دیکھا جاتا ہے۔ 
ایک اور بات کی وضاحت بھی کرتا چلوں کہ انتخابات اس وقت صاف و شفاف اور کامیاب تصور کئے جاتے ہیں جب ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی مکمل آزادی اور انہیں فل لیول پلینگ فیلڈ دستیاب ہو۔ اب اس سے آگے میں آپ کے کسی اور سوال کا جواب اس لئے بھی نہیں دے پائوں گا کہ عدالت عظمیٰ انتخابات کے حوالہ سے ایک سخت حکم بھی جاری کر چکی ہے اس لئے کسی بھی عدالتی حکم کے خلاف کچھ کہنے کا مطلب آپ مجھ سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ یہ تصور کرلیں کہ آگے کچھ کہتا ہوں تو ’’پر جلتے ہیں‘‘۔ اعجازالحق نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا! اعجازالحق گو درست کہہ رہے تھے۔ مگر موسمی تبدیلی جس میں جنوری کے آخری اور فروری کے پہلے ہفتے برف باری یا شدید بارشوں کی پیشین گوئی بھی شامل ہے‘ طے شدہ انتخابی شیڈول پر اثرانداز تو نہ ہوگی؟ میرے اس سوال کے جواب میں اعجازالحق نے دیگر کئی سوالوں سمیت تمام تر معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا اور یوں میںنے اپنی توجہ چند روز بعد آنیوالی کرسمس کی خوشیوں پر مرکوز کرلی۔ 
جی ہاں! کرسمس کے مسیحی تہوار میں چند روز باقی رہ گئے ہیں۔ 25 دسمبر کو جہاں یوم قائداعظم دھوم دھام سے منایا جائیگا‘ وہاں دنیا بھر میں کرسمس تہوار بھی پورے جوش و جذبہ سے منایا جا رہا ہے۔ برطانیہ کے مختلف شہروں میں کرسمس تقریبات کا آغاز یوں تو گزشتہ کئی روز سے ہو چکا ہے مگر لندن میں کرسمس کی بڑی تقریب کا خصوصی انعقاد گزشتہ دنوں پاکستان ہائی کمیشن میں ہوا جس میں لندن کے مختلف علاقوں الفورڈ‘ سائوتھ آل سمیت مانچسٹر‘ رگبی اور ویلز کی مسیحی برادری نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ اس تقریب کے روح رواں رگبی گہر کے سابق میئر‘ ممتاز دانشور اور طویل المدت تک کونسلر کے عہدے پر فائز ڈاکٹر جیمز شیرا (ستارۂ پاکستان) تھے۔ علیل ہونے کے باوجود انہوں نے وہیل چیئر پر اس خصوصی دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔ 
ہائی کمیشن میں منعقدہ اس تقریب کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ تھی کہ ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل‘ انکی اہلیہ‘  ڈاکٹر سارہ نعیم‘ ڈپٹی ہائی کمشنر ڈاکٹر فیصل عزیز‘ انکی اہلیہ اور منسٹر انفارمیشن علی نواز ملک سمیت ہائی کمیشن کے افسران اور سٹاف نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ 

ای پیپر دی نیشن