عالمی طاقتیں داعش اور اس طرح کی دیگر تنظیموں سے خوف زدہ ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی تمام دہشت گرد تنظیمیں ایک طرف اور بھارت کی تخریبی کارروائیاں ایک طرف ہیں۔ دنیا نہیں مانتی، لوگ توجہ نہیں دیتے، عالمی طاقتوں کے بھارت سے جڑے مالی مفادات ہیں جن کی وجہ سے وہ بھارت کی تخریبی اور دہشت گردانہ کارروائیوں پر کسی سخت ردعمل کے بجائے مصلحت سے کام لیا جاتا ہے اور اس کا یہ نتیجہ سامنے آ رہا ہے کہ بھارت نے امریکہ اور کینیڈا کو بھی نشانے پر رکھ لیا ہے۔ پاکستان دہائیوں سے بھارت کی ایسی سرگرمیوں اور مختلف ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت پر آواز بلند کر رہا ہے، عالمی طاقتوں اور عالمی اداروں کو بار بار یاد دہانی کروا رہا ہے کہ بھارت کی طرف سے عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں صرف پاکستان کے لیے خطرہ نہیں ہیں بلکہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور دہشت گردوں کی سرپرستی عالمی امن کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں لیکن دنیا نہیں سمجھتی، دنیا یقین نہیں کرتی، دنیا تسلیم نہیں کرتی۔ یاد رکھیں اگر عالمی ادارے اور عالمی طاقتوں نے اس طرف توجہ نہ دی تو ایک دن سب بھگتیں گے۔ بھارت مسلسل عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے، کینیڈا میں سکھ رہنما کا قتل اور امریکہ میں سکھ رہنما کو قتل کرنے کی کوشش سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارت عالمی سطح پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔
پاکستان میں بھی دہائیوں سے بھارت بلوچستان کے ذریعے بدامنی پھیلانے اور علیحدگی کی تحریکوں میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان متعدد بار سفارتی سطح پر یہ مسئلہ اٹھا چکا ہے اور ثبوت بھی متعلقہ فورمز پر پیش کیے گئے ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اب ایک مرتبہ پھر ایک ایسا ثبوت سامنے آیا ہے جسے نہ تو جھٹلایا جا سکتا ہے نہ ہی تردید کی جا سکتی ہے۔ یہ خبر بلوچستان سے ہے جہاں کالعدم بلوچ نیشنل آرمی کے سابق کمانڈر سرفراز بنگلزئی نے ستر ساتھیوں سمیت قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔بی این اے کے سابق کمانڈر سرفراز بنگلزئی نے انکشاف کیا کہ "بلوچستان کا امن تباہ کرنے کے لیے بھارت فنڈنگ کرتا ہے ،منشیات فروشی،لوگوں کو اغوا بھی کیا جاتا ہے، کچھ لوگ مذموم مقاصد کے لیے بلوچ ماؤں، بہنوں اور بلوچ نوجوانوں کو ریاست کیخلاف استعمال کر رہے ہیں، جنگ میں خواتین کو بھی دھکیلا جارہا ہے۔
اپنے لوگوں اور اپنی سرزمین سے دور رہنے پر پچھتانے کے سوا کچھ نہیں، یہاں آکر خوشی محسوس کر رہا ہوں۔ باقی لوگ بھی اس انتظار میں ہیں کہ ریاست ان کو ویلکم کہے۔ سرفراز بنگلزئی کا کہنا تھا کہ نقصانات کافی ہوئے ہیں، والدین کو بھی پیغام ہے بچوں کو ایسے ماحول سے دور رکھیں،بندوق مسئلے کا حل نہیں، والدین بچوں کو تعلیم دیں۔"
بلوچستان سے یہ خبر دنیا کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ بھارت کس طرح پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے، بھارت کس سطح پر آ کر پاکستان میں عدم استحکام کے لیے سازشیں کر رہا ہے، بھارت پاکستان کے ایک اہم صوبے کے ذریعے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ شاید لوگوں کو یاد ہو کہ پاکستان توڑنے کے لیے بھی بھارت نے ایسی کارروائیاں کی تھیں، آج بھارت بلوچستان میں لوگوں کو استعمال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے ذریعے تخریبی کارروائیاں کی گئیں۔ موجودہ حالات میں پاکستان کے لوگوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ دشمن ملک کی ان سازشوں کا توڑ کرنے کے لیے متحد ہو کر مقابلہ کریں، سیاسی و علاقائی تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اتحاد کی فضا قائم کریں ۔ ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے، ہمارا دشمن اس عدم استحکام کا فائدہ اٹھانے اور سادہ لوح معصوم پاکستانیوں کو ورغلانے میں مصروف ہے، کیا پاکستان کے ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ ہم متحد ہو کر اپنے دشمن کو پیغام دیں کہ وطن کے دفاع کی خاطر ہم سب متحد ہیں، ہم اپنے ریاستی و دفاعی اداروں کے ساتھ ہیں۔ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اور جوان آج بھی ملک میں امن و امان کو قائم رکھنے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، بھارت کو یاد رکھنا چاہیے افواج پاکستان ملکی دفاع کے لیے ہر وقت تیار ہے، دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے دن رات کام ہو رہا ہے اور عالمی سطح پر بھارت کو ٹھوس ثبوت اور شواہد کے ساتھ بے نقاب کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
حکمرانوں کو بھی بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کی طرف توجہ دینی چاہیے، وسائل سے محروم علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھانا چاہیے، حقیقی معنوں میں بلوچستان کی خدمت کے اور احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے کام کرنا ہو گا۔ بلوچستان کے لوگوں کا بھی حق ہے کہ انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات میسر ہوں، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ مختلف وقتوں میں حکمرانوں نے بلوچستان کی ترقی کے وعدے تو ضرور کیے لیکن عملی طور پر بلوچستان کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بلوچستان کی اہمیت و حیثیت کو دیکھتے ہوئے وہاں کام ہونا چاہیے، لوگوں کا طرز زندگی بلند کرنے کے لیے حکومتی سطح پر طویل المدتی منصوبوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں عدیم ہاشمی کا کلام
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا
میں تری صورت لیے سارے زمانے میں پھرا
ساری دنیا میں مگر کوئی ترے جیسا نہ تھا
آج ملنے کی خوشی میں صرف میں جاگا نہیں
تیری آنکھوں سے بھی لگتا ہے کہ تو سویا نہ تھا
یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا
سینکڑوں طوفان لفظوں میں دبے تھے زیر لب
ایک پتھر تھا خموشی کا کہ جو ہٹتا نہ تھا
یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیم
بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارا نہ تھا
مصلحت نے اجنبی ہم کو بنایا تھا عدیم
ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا