لوگ ایسی کتابوں کی تلاش میں لائبریریوں کا رخ کرتے ہیں جو ان کے شوق کو پورا کرتی ہیں۔ ان کلاسک کتابوں میں حال ہی میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب شامل ہوئی ہے جس میں اجنبیوں کے پیغامات، فون کالز اور مشہور "انسٹاگرام" ویب سائٹ کے فالوورز کے "سوالات" کے جوابات شامل ہیں۔ مالا یقال‘‘ کے عنوان سے اس انوکھی کتاب کی مصنفہ دانہ فیصل مدوہ ہیں۔ کویتی مصنفہ جنہوں نے حال ہی میں جدہ نمائش میں شرکت کی تھی نے اپنی کتاب کو از خود لکھی جانے والی کتاب قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کتاب کے مواد میں انسٹاگرام پر اپنے فالوورز کے ساتھ میری گفتگو کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ انسٹاگرام پر ہونے والی بات چیت تھی جس کو محفوظ کیا گیا اور پھر کتاب کی شکل میں پیش کردیا گیا ہے۔انسٹاگرام پر گفتگو کو محفوظ کرنے نے ہی مجھے کتاب "مالا یقال" لکھنے پر آمادہ کیا۔ لوگوں نے اس کتاب کو حیرت انگیز قرار دیا ہے کیونکہ اس کتاب کا خیال غیر روایتی اور کتاب اور اشاعت کے بازار کے عمومی فریم ورک سے باہر ہے۔اس کتاب کے حوالے سے دانہ مدوہ نے ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘ کو بتایا کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ کتاب خود بخود لکھی گئی ہے۔ میرا مقصد کتاب لکھنے کا نہیں تھا۔ میں کورونا وبا کے دوران کسی سکون کی تلاش میں تھی۔ میں نے انسٹاگرام پلیٹ فارم پر جا کر فالورز کے ’’خنسولف‘‘ کے نام سے مکالمہ شروع کیا۔ مکالمہ بے ترتیب طور پر کیا گیا۔ بعد میں فالورز نے مجھ سے مکالمے لکھ کر محفوظ کرنے کو کہا تاکہ وہ دوبارہ اس سے رجوع کر سکیں۔ بس یہ شروعات تھی۔مدوہ نے اپنی کتاب کو اپنے فالوورز کے سامنے چند الفاظ کے ساتھ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جب بھی میں راتوں کو فکر سے مغلوب ہوتی تو میں اپنا فون اٹھاتی اور ہزاروں اجنبیوں کے لیے ایک ہلکی سی کال چھوڑ دیتی۔ ’’خنسولف‘‘ میری تنہائی کی نشاندہی کرنا ہے۔ شروع میں لوگوں کے تبصروں کو چھانٹنے اور کھولنے میں کچھ دقت محسوس ہوئی۔مدوہ نے مزید کہا کہ اس کتاب کو شائع کرنے کے لیے پیروکاروں نے شدید عجلت کا مظاہرہ کیاہے۔ یہ کتاب ایک مشترکہ تعاون ہے کیونکہ بغیر کسی سوال کے اس کا جواب نہیں دیا جاتا اور بات چیت کے تبادلے کے بغیر کوئی مکالمہ نہیں ہوتا۔انہوں نے مزید کہا کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد مجھے ایک بڑی فائل پر مشتمل ایک ای میل نے حیران کر دیا جس میں 1,200 انٹرویوز تھے جو میں نے 3 سال کے عرصے میں کیے تھے۔ پھر میں نے ان مکالموں کو نقل کیا اور انہیں تحریری مواد میں تبدیل کر دیا۔ بعد ازاں 10 ماہ کے کام کے بعد میں اس کا حتمی ورژن سامنے لے آئی۔کویتی مصنفہ سے پوچھا گیا کہ ان مکالموں نے اسے انسانی سطح پر کیا سکھایا تو مدوہ نے جواب دیا کہ ان مکالموں نے مجھے سکھایا کہ ہم سب آوارہ گردی میں برابر ہیں۔ زندگی زندہ رہنے کی مسلسل کوششوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔