وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اپنے مشرق وسطیٰ کے غیر معمولی دورے کے دوران ایک اہم فوجی مصروفیت کے دن جیرالڈ فورڈ نامی جدید ترین امریکی بحری بیڑے پر امریکی فوجیوں سے ملاقات کی ہے اور خطے میں جنگ پھیلنے سے روکنے میں ان کے کردار پر شکریہ ادا کیا ہے۔جیرالڈ فورڈ سات اکتوبر کے فوری بعد سے امریکی دفاعی مرکز پینٹاگون نے بحری بیڑا خطے میں بھجوا دیا تھا۔ اس بحری بیڑے پر چار ہزار امریکی فوجی عملے کے ارکان تعینات اور آٹھ سکواڈرنز موجود ہیں۔ اس پر موجود طیاروں نے اب تک 8000 پروازیں بھری ہیں تاکہ دور تک علاقائی پانیوں کی نگرانی کی جا سکے اور ممکنہ خطرات کو روکا جا سکے۔امریکی بحری بیڑوں کی خطے میں موجودگی کا اولین مقصد اسرائیل کو غزہ میں اپنا جنگی مشن مکمل کرنے میں مدد دینا اور اسے خطے سے کسی بھی دوسرے خطرے اور بیرونی حملے سے محفوظ رکھنا تھا۔ تاکہ غزہ میں جاری جنگ کا دائرہ پورے علاقے تک نہ پھیل جائے اور صورت حال کو اسرائیل کے لیے سنبھالنا مشکل نہ ہوجائے۔اسرائیلی جنگ کامیابی سے آگے بڑھ رہی اور اسرائیل نے اب تک تقریبا ً بیس ہزار فلسطینیوں کو شہید ، 53000 کے قریب کو زخمی اور 20 لاکھ تک کو بے گھر کر دیا ہے، جبکہ حماس کے کئی جنگی مراکز کا پتہ چلا کر انہیں ختم کیا ہے نیز زیر زمین سرنگوں کا بھی کچھ پتہ چلایا ہے۔ بلاشبہ امریکہ کی خطے میں فوجی موجودگی اور غیرمعمولی مدد کے بغیر یہ ممکن نہ ہو سکتا تھا۔خود امریکی وزیر دفاع پچھلے کئی دنوں سے خطے میں موجود ہیں اور خطے میں جنگ کو روکے رکھنے کے مشن کے سلسلے میں مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں کو دورہ بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے 18 دسمبر کر اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ سے ملاقات کی اور جنگی چیلنجوں پر تبادلہ خیال کیا۔
لائیڈ آسٹن نے اس دوران بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملوں کو روکنے سمیت دیگر جنگی خطروں کی روک تھام کے لیے خطے کے ممالک کے وزرائے دفاع کے ساتھ تفصیلی اجلاس بھی کیا ہے۔ وزیر دفاع نے انہیں امریکہ کے ساتھ ملکر سمندروں کو محفوظ رکھنے کا کہا ہے۔ نیز قطر میں حکام کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے معاہدے پر بھی بات چیت کی ہے۔بحری بیڑے کے دورے کے دوران انہوں نے علاقائی پانیوں میں امریکی فوجی موجودگی کی وجہ سے ملنے والی کامیابیوں کا بھی ذکر کیا اور کہا ایک کامیابی یہ بھی ہوتی ہے کہ آپ کسی چیز کو ہونے سے روک لیں ، آپ سب نے یہی کام کیا ہے۔تاہم وزیر دفاع اس موقع پر حتمی طور پر بتانے کی پوزیشن میں نہیں تھے کہ بحری بیڑے کو کب تک مشرق وسطیٰ میں رہنا ہے اور واپس امریکہ کب لوٹنا ہے۔ ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ اسرائیل کب تک غزہ میں حماس کے خلاف صرف 'سرجیکل سٹرائیکس 'کی طرف مائل ہوگا۔ امریکہ اس سے پہلے خطے سے بحری بیڑے کو واپس لے جانا نہیں چاہے گا۔اسرائیلی فوجی حکام اس امر کا غیر رسمی طور پر اعتراف کرتے ہیں کہ اگر امریکی بحری بیڑے مدد کے لیے نہ آتے تو اسرائیل کی غزہ میں جنگ اس طرح نہ چل رہی ہوتی اور جنگ کی حالت کچھ دوسری ہوتی۔