وفاقي وزير داخلہ رحمان ملک نے سندھ اسمبلی ميں بے نظير بھٹو قتل کيس کي تحقيقات سے متعلق ميں بريفنگ دی،بريفنگ کے دوران رحمان ملک کا کہنا تھا کہ ہر پاکستانی يہ جاننا چاہتا ہے کہ بے نظير بھٹو قتل کس نے کيا کون لوگ ان کے قتل ميں ملوث ہيں اس قتل کی منصوبہ بندی کہاں ہوئی،
وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ بے نظیر کے واپس آنے پر اٹھارہ اکتوبر کو جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ملزم نے ڈیڑھ سال بعد واردات میں استعمال ہونے والی سم آن کی جس سے پیش رفت ہوئی۔ ملزم نے گرفتاری کے بعد تمام تفصیلات بتائیں کہ وہ کس مدرسے میں ٹھہرے،کہاں سے اسلحہ حاصل کیا اور ملزم نے یہ بھی بتایا کہ مدرسے کا کون سا کمرہ استعمال ہوا۔ اگر میں پہلے مدرسے کا نام لے لیتا تو لوگ کہتے کہ ان کے پاس ثبوت نہیں۔
رحمان ملک نے کہا کہ کافی حد تک بینظیر بھٹو کا کیس حل ہوچکا ہے تاہم بعض معلومات حساس نوعیت کی ہیں جنہیں منظرعام پر نہیں لایا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کے خلاف ن لیگ اور سابق صدرپرویزمشرف نے انتقامی کارروائیاں کیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ لوگ گرفتار ہیں جنہوں نے محترمہ کے قتل کی سازش پر عمل کرایا۔ قاری حسین نے درجنوں خود کش بمبار تیار کیے۔ حملہ آوروں کی عمریں پندرہ سے بیس سال کے درمیان ہیں۔ محترمہ کا قاتل قاری حسنین کے گھر پر رہا۔ بے نظیر نے لال مسجد آپریشن کی حمایت کی تھی رمزی یوسف نے بے نظیر کو کراچی میں مارنے کی منصوبہ بندی کی۔ دوسرےحملے کا منصوبہ خالد شیخ اور اس کے ساتھی نے بنایا۔ یوسف رمزی نے بتایا کہ بے نظیر کو بم سے نشانہ بنانا تھا بم مین ہول میں نصب کررہے تھے کہ پولیس آگئی۔ یوسف رمزی تیرہ روز لاہور کے ہسپتال میں زیر علاج رہا۔ بیت اللہ محسود نے تمام منصوبہ بندی شمالی وزیرستان میں مکین کے مقام پر کی۔ رحمان ملک نے کہا کہ حملہ آوروں میں سے تین حقانیہ مدرسے کے پڑھے ہوئے ہیں۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ مشرف نے محترمہ کو سکیورٹی فراہم نہیں کی۔ سابق صدر پرویز مشرف نے محترمہ بےنظیر بھٹوسے کہا کہ اگرآپ انتخابات سے قبل پاکستان آئیں تو سیکیورٹی کی ذمہ دار حکومت نہیں ہوگی۔ پرویز مشرف کو واپس لانے کیلئے ریڈ وارنٹ جاری کریں گے اور انہیں انٹر پول کے ذریعے وطن واپس لایا جائے گا۔ رحمان ملک نے کہا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کو اندازا تھا کہ مستقبل میں ملک کو بڑے مسائل کا سامنا ہوگا، اسی لئے انہوں نے مصالحت کا آغاز کیا۔
انہوں نے کہا کہ افغان صدر حامد کرزئی نے پیغام دیا کہ محترمہ کی جان خطرے میں ہے، بعد میں ان سے بیان مانگا گیا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ سابق امریکی وزیر خارجہ نے بھی بیان دینے سے انکار کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اٹھارہ اکتوبر کو کارساز کے قریب محترمہ کو بچہ بھیجنے کی کوشش کی گئی لیکن بعد میں پتا چلا کہ کپڑے میں لپٹا بچہ نہیں بم تھا۔ اسلئے اسے روک دیا گیا۔ انہوں نے وزیراعلی سندھ سے اپیل کی کہ سانحہ کارساز کے واقعے کی تحقیقات کیلئے ٹیم تشکیل دیں۔
وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ بے نظیر کے واپس آنے پر اٹھارہ اکتوبر کو جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ملزم نے ڈیڑھ سال بعد واردات میں استعمال ہونے والی سم آن کی جس سے پیش رفت ہوئی۔ ملزم نے گرفتاری کے بعد تمام تفصیلات بتائیں کہ وہ کس مدرسے میں ٹھہرے،کہاں سے اسلحہ حاصل کیا اور ملزم نے یہ بھی بتایا کہ مدرسے کا کون سا کمرہ استعمال ہوا۔ اگر میں پہلے مدرسے کا نام لے لیتا تو لوگ کہتے کہ ان کے پاس ثبوت نہیں۔
رحمان ملک نے کہا کہ کافی حد تک بینظیر بھٹو کا کیس حل ہوچکا ہے تاہم بعض معلومات حساس نوعیت کی ہیں جنہیں منظرعام پر نہیں لایا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کے خلاف ن لیگ اور سابق صدرپرویزمشرف نے انتقامی کارروائیاں کیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ لوگ گرفتار ہیں جنہوں نے محترمہ کے قتل کی سازش پر عمل کرایا۔ قاری حسین نے درجنوں خود کش بمبار تیار کیے۔ حملہ آوروں کی عمریں پندرہ سے بیس سال کے درمیان ہیں۔ محترمہ کا قاتل قاری حسنین کے گھر پر رہا۔ بے نظیر نے لال مسجد آپریشن کی حمایت کی تھی رمزی یوسف نے بے نظیر کو کراچی میں مارنے کی منصوبہ بندی کی۔ دوسرےحملے کا منصوبہ خالد شیخ اور اس کے ساتھی نے بنایا۔ یوسف رمزی نے بتایا کہ بے نظیر کو بم سے نشانہ بنانا تھا بم مین ہول میں نصب کررہے تھے کہ پولیس آگئی۔ یوسف رمزی تیرہ روز لاہور کے ہسپتال میں زیر علاج رہا۔ بیت اللہ محسود نے تمام منصوبہ بندی شمالی وزیرستان میں مکین کے مقام پر کی۔ رحمان ملک نے کہا کہ حملہ آوروں میں سے تین حقانیہ مدرسے کے پڑھے ہوئے ہیں۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ مشرف نے محترمہ کو سکیورٹی فراہم نہیں کی۔ سابق صدر پرویز مشرف نے محترمہ بےنظیر بھٹوسے کہا کہ اگرآپ انتخابات سے قبل پاکستان آئیں تو سیکیورٹی کی ذمہ دار حکومت نہیں ہوگی۔ پرویز مشرف کو واپس لانے کیلئے ریڈ وارنٹ جاری کریں گے اور انہیں انٹر پول کے ذریعے وطن واپس لایا جائے گا۔ رحمان ملک نے کہا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کو اندازا تھا کہ مستقبل میں ملک کو بڑے مسائل کا سامنا ہوگا، اسی لئے انہوں نے مصالحت کا آغاز کیا۔
انہوں نے کہا کہ افغان صدر حامد کرزئی نے پیغام دیا کہ محترمہ کی جان خطرے میں ہے، بعد میں ان سے بیان مانگا گیا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ سابق امریکی وزیر خارجہ نے بھی بیان دینے سے انکار کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اٹھارہ اکتوبر کو کارساز کے قریب محترمہ کو بچہ بھیجنے کی کوشش کی گئی لیکن بعد میں پتا چلا کہ کپڑے میں لپٹا بچہ نہیں بم تھا۔ اسلئے اسے روک دیا گیا۔ انہوں نے وزیراعلی سندھ سے اپیل کی کہ سانحہ کارساز کے واقعے کی تحقیقات کیلئے ٹیم تشکیل دیں۔