ویلنٹائن ڈے پر جہاں محبتوں کے پیغام آرہے تھے، وہیں پر ویلنٹائن ڈے کی مذمت کے پیغامات سے ای میل اکاﺅنٹ اور سارا سوشل میڈیا بھرا پڑا تھا‘ کچھ تنبیہ نما‘ کچھ فتوی نما۔ یہ سب آپ نے پہلے بھی پڑھے ہونگے مگر پھر سے ایمان کو تازہ کر لیں :
محبت کا دن منانا مسلمانوں کے لئے مناسب نہیں ۔ یہ پاکستانی کلچر سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ویلنٹائن ڈے پیار کا کھلم کھلااظہاہے اور چوما چاٹی ہے، جس کی اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ پاکستانی معاشرہ ۔ اس لئے اس دن کو اینٹی ویلنٹائن ڈے کے طور پر منایا جاناچاہیئے ۔ یعنی محبت کے دن کو محبت کی مخالفت کے دن کے طور پر منایا جائے۔اگر ہم متضادالفاظ کے بنیادی سبق کویاد کریں تو یاد آتا ہے کہ محبت کا متضاد نفرت ہوتا ہے ۔ یعنی ہمیںویلنٹائن ڈے کو نفرت کے دن کے طور پر منانا چاہیئے۔سبحان اللہ۔
اور اس میں فکر کرنے کی کوئی بات نہیں کیونکہ بلا شبہ پاکستان کے اسلامی معاشرے میںنفرت سب سے وافر مقدار میں بکھری پڑی ہے ۔آپ ہاتھ بڑھائیں اور نفرت سے اپنی جھولی بھر لیں ۔ سخت رویوں اور نفرت آمیز سلوک کو ستائش اور کیریکٹر سرٹیفکیٹ سمجھا جاتا ہے ۔دوسرے مذاہب اور دوسرے فرقوںسے اس حد تک نفرت کی جاتی ہے کہ اس بنیاد پر کئے گئے تشدداورقتل کارِ ثواب گردانے جاتے ہیںاور نفرت پھیلانے والے لوگوں کے دلوں کو سیاہ کر رہے ہیں۔ الحمد اللہ کوئی راسخ مسلمان اور پاکستانی یہ نہیں سمجھتاکہ یہ قابلِ مذمت ہیں( جو ان نفرت انگیزی کو برا سمجھتے ہیں وہ یا تو مسلمان نہیں یا پا کستانی نہیں کیونکہ ان پرکافراور غدار کا فتوی لگا دیا جاتا ہے)۔اس کے برعکس نفرت کوعبادت کا درجہ دے کر جنت میں جانے کا راستہ بتا یاجاتا ہے ۔
کھلم کھلا پیار کا اظہار معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتا ہے اور ہماری روایات کے منافی ہے۔یہ چیزیں پاکستانی مسلم معاشرے کے لئے زہر ہیں ۔ کیونکہ اس معاشرے کا زیور شرم و حیا ہے ۔۔۔بجا فرمایا جس جس نے بھی یہ فرمایا ۔۔ا س سے پہلے کہ میں محبت کی بات کروں اور بتاﺅں کہ کینڈا یا امریکہ میں یہ دن کیا رخ لے چکا ہے اور کس طرح منایا جاتا ہے ،میں اس کریہیہ منظر کو اپنی آنکھوں سے کھر چنا چاہتی ہوں جس کے گھناﺅنے اور ننگے پن میں اتنی شدت تھی کہ میں اپنی تمام طرح جرات کے باوجودکبھی اس واقعے کو لکھنے کی ہمت نہ کر پائی کیونکہ میری تربیت بھی اسی اعلیٰ ثقافتی اقدار والے ملک میں ہوئی ہے جہاں پردہ ڈالنے کو اور جرم ہوتا دیکھ کر آنکھیں بند کرنے کو روایت کا پابند اور اعلی اخلاقی اقدار والا اچھا اور نیک مسلمان سمجھا جاتا ہے۔ مگر میری بے بسی تو دیکھومیں اُس کالے منظر کو آج تک کبھی بھی بھول نہیں پائی ۔میں اچھا مسلمان اور پاکستانی بن کرمزید جی سکتی تھی اگر یہ الفاظ نشتر کی طرح میرے کلیجے کے آر پار نہ ہوگئے ہوتے کہ پاکستانی معاشرے میں کھلم کھلا بے حیائی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
میرے حلق میں ان نمکین آنسوﺅں کا ذائقہ گھل گیا جب کئی سال پہلے میں لاہور پاکستان کے ایک چوک پر کھڑی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی باہر دیکھ رہی تھی۔ شادیوںمہندیوں پر ڈھول بجانے والے مختلف عمروں کے بچے پیلے چمکیلے کپڑے پہنے ، گلے میں ڈھول لٹکائے چوک کے بیچوں بیچ اس انتظار میں تھے کہ کوئی گاہک آئے اور انہیں پر فارمنس کے لئے لے جائے۔ وہ ہنستے کھیلتے نوجوان لڑکے اسی گول دائرے جس کے چاروں طرف ٹریفک اور لوگ چل پھر رہے تھے، ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔پہلی نظرمیںتو یہی تاثر ابھرا۔میں سوچنے لگی ان بچوں کے پڑھنے کی عمر ہے، تپتی دھوپ میں کھڑے ہیں ، کوئی گاہک نہ ملے تو گھر میں روٹی تک نہ پکے وغیرہ وغیرہ اور ایک دم انہی سوچوں کے درمیاں میری آنکھوں میں کسی نے تیز ناخنوں سے زخم کر دیئے۔کیا دیکھتی ہوں کہ وہ نوجوان لڑکے ایک دوسرے کے پیچھے نہیں بھاگ رہے بلکہ یہ سب ایک چھوٹے سے لڑکے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور اسے خاص جگہ سے چھوُ کر بھاگ جاتے ہیںاور جب وہ اپنے آپ کو بچانے کی ناکام کوشش کرتا ہے تو یہ اپنی کامیابی پرقہقے لگاتے ہیں اور زمین پر لوٹ پوٹ ہوتے ہیں ۔اور جب میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس آٹھ نو سال کے بچے کی شلوار اتار دی گئی اسی ثانئے میری گاڑی تو سگنل کھلنے پر آگے نکل گئی مگر وہ بچہ بے بسی کی تصویر بنا میری آنکھوں میں کھُب گیا ۔ وہ چوک اسلامی جمہوریہ پاکستان کا تھا اور چاروں طرف مسلمان پھر رہے تھے ۔وہ اس کو دیکھ بھی رہے ہونگے مگریہ روز مرہ کا عمل ہوگا تبھی تو اردگرد کسی آنکھ میں چبھن نہیں تھی۔اور اس چوک کے اردگرد کوئی دیوار نہیں تھی ، کوئی پردہ نہیں تھا ۔ سب کچھ کھلم کھلا ہو رہا تھا ۔مگر افسوس کہ یہ فعل اس معاشرے میں بے حیائی کے زمرے میں نہیں آتا۔بے حیائی تو یہ ہے کہ وہ لڑکا لڑکی ہوتے اور اپنی رضامندی سے ایک دوسرے کا صرف ہاتھ ہی تھامے ہوتے اور میں نے آخری وقت میں یہ مڑ کر دیکھا کہ کاش اس بچے کے چہرے پر بھی مجھے ہنسی نظر آجائے جو بڑے لڑکوں کے چہرے پر تھی۔ اس تسلی کے لئے وہ بچہ بھی اس سارے عمل کو ایک تفریح سمجھ رہا ہے ۔ مگر آج کئی سال گذرنے کے بعد بھی میں اس بچے کی آنکھوں میں بے بسی کا تیرتا پانی نہیں بھلا سکی ۔۔ آج یہ سب لکھنے کے بعد شائد مجھے اس منظر سے مُکتی مل جائے ۔ مگر پاکستان کے گھٹے نظام میں اس جیسے بچوں کو مکتی نہیں۔ سوائے اس کے کہ آج جب وہ بچے سے نوجوان بن چکا ہوگا ، اپنی شلوار بچانے والوں کی فہرست سے نکل کرتفریح کرنے والے گروپ میں شامل ہوگیا ہوگااور اسطرح اعلیٰ اخلاقی اقدار والااسلامی نظام پاکستان میں یوں ہی چلتا رہے گا ۔ جہاں مذہب اور ثقافت کا نام لے لے کر عام کشش کی چیزوں کو بھی ایک کشمکش کی صورت دے دی گئی ہے ۔ معاشرے کو اس قدر ہیجان میں مبتلا کر دیا گیا ہے کہ وہ موقع ملنے پرا قدر کی بے قدری کر دیتے ہیں اورپھر اس پر چُپ کی چادر ڈال دیتے ہیں ۔
محبت کے سینٹ ( وہ کسی بھی مذہب کا ہو )کے نا م پر دن منایا جارہا ہے تو پیغام محبت ہی ہے۔میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے ۔ہمارے صوفی بزرگوں کا پیغام بھی یہی ہے۔دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے اور میرے خیال میں ہمارے محبت کے سینٹ اورصوفی بزرگوں کا پیغامِ محبت ہے جو کہ ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل رہا ہے ۔ تیسری صدی میںلڑکا لڑکی کی شادی سے ویلنٹائن ڈے کی جو روایت شروع ہوئی تھی وہ اکیسویں صدی میں پہنچ کر محبت کے وسیع تر معنوں کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہے۔ میںاپنے بچوں کے لئے،انکی ٹیچرز اور کلاس فیلوز کےلئے کارڈزلے رہی تھی تو مجھے اس لمس کی یاد آئی جب میرا سب سے چھوٹا بیٹا احمد پیدا ہوا تو نرس کے ہاتھوں میں بے تحاشا رو رہا تھا۔نرس نے بغیر صاف کئے اسے میرے پیٹ پر ڈال دیا تووہ ایک لمحے سے بھی پہلے رونا بھول گیا ، نر س نے دوبارہ اٹھایا تو پھر رونے لگا ۔گوری نرس نے انگریزی (اردو یا عربی میں نہیں )میں کہا خدادنیا میں محبت کاسب سے پہلا تعارف اس آنول ) (umbilical cordکے ساتھ کرواتا ہے جو ہم جسمانی طور پر کاٹ تو دیتے ہیں مگریہ کبھی بھی نہیں کٹتی ۔ پھر مجھے اپنی بہن کی یاد آئی جوبارہ سال سے برین کینسرجیسے موذی مرض سے جنگ لڑ رہی ہے اور اب لڑائی کے آخری مرحلوں سے گذر رہی ہے وہ پچھلے چھ مہینے سے بستر سے لگ چکی ہے اور بول تک نہیں پا رہی، میری امی اس کا ہاتھ تھامے سرہانے بیٹھی ہیں ، اس کے کمرے سے نہیں نکلتیں اور اس کا بازو تھامے بیٹھے رہتی ہیں یوں جیسے بارات کے جانجیوں کو واپس موڑ دیں گی اور اسے رخصت نہیں ہونے دیں گی ۔کیونکہ گوری نرس کا خدا اور میری ماں کا اللہ ایک جیسا ہے۔ جس نے انسان کو محبت کا پہلا تعارف آنول سے کروایا ۔ میری امی اور بہن کے درمیان بظاہر آنول کو کٹے چوالیس سال ہوگئے ہیں مگر محبت کا آنول ہے کہ کٹنے میںہی نہیں آتا ۔
پھر اس کی بیس سالہ بیٹی کا خیال آیا۔وہ آٹھ سال کی عمر سے ماں کی بیماری کے ساتھ شانہ بشانہ لڑ رہی ہے۔ اب جبکہ اسکی ماں بے حرکت،بے آواز بستر پر پڑی ہے توروزمرہ کے بوجھ اٹھا ئے ماں کے سینے سے جا لگتی ہے اور کہتی ہے ماںتجھ سے اتنی باتیں کی ہیں کسی ایک کا جواب تو دے دو۔وہ میڈیکل کی سٹوڈنٹ ہے سب جانتی ہے کہ ماں اب ہاتھ تک نہیں ہلا سکتی پھر بھی کہتی ہے ماں ایک دفعہ بس مجھے جپھی ڈال دو۔اور ماں جس کے سب فنکشنز دھیرے دھیرے کام کرنا چھوڑ چکے ہیں یا چھوڑ رہے ہیں ، مگر وہ آنول جو محبت کا پہلا تعارف تھا ابھی بھی فعال ہے ، تبھی تو بیٹی کی یہ باتیں سن کر اس کی آنکھیں ایک جگہ ٹھہر جاتی ہیں اوروہ بازو اٹھانے کےلئے سعی¾ لاحاصل کرتی ہے ۔ ۔۔میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔
عمران علی ( پو لٹیکل قونصلر، پاکستانی قونصلیٹ)، عظمیٰ عمران اور ان کی گڑیا سی بیٹی ہمارے بہت پیارے دوست ہیں۔۔جب کینسر عظمی کے اوپر اپنی پوری شدت سے حملہ آور ہوا تو عظمیٰ کی آنکھوں میںاپنے لئے آنے والے لمحوںکاخوف کم اور تین سال کی بیٹی اقرا کے مستقبل کے لئے تذبذب زیادہ ہے ۔عظمی عمران پہلے بھی اپنی بیٹی کو گود میں بھرتی ہوگی مگر اب جب بھی اسے سینے سے لگاتی ہے تو مجھے لگتاہے کہ بیماری سے لڑنے کی ہمت اس کے اندر چوگنی ہوجاتی ہے۔ گو کہ ڈاکٹروں نے آنول کاٹ دیا تھامگریہ آنول ایسا ہے جو کاٹے نہیں کٹتا۔ اور یہ محبت ہی ہے کہ جب ٹورنٹو شدید برفانی طوفان کی زد میں تھا اور ٹی وی پر بار بار لوگوں کو باہر نہ نکلنے کی تاکید کی جارہی تھی عمران علی منہ اندھیرے اعظمی کی کیمو تھراپی کےلئے ان خطرناک سڑکوں پربمشکل تمام ہسپتال کی طرف گاڑی چلا رہا تھااور اس کے لئے جو جراءتِ رندانہ درکار تھی ،وہ محبت کی دین ہے۔
نہ جانے دنیا میں محبت کا اظہار پاکستانی معاشرے میں مناسب ہے یا نہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ محبت پانی کی طرح ہے جس پیمانے میں ڈالو ویسی ہی ہوجائے گی ۔ معاشرے سے سڑاندھ اورتعفن دور کر کے اس میں محبت کا رنگ بھردو تومحبت بے حیائی پھیلانے کا باعث نہیں ہوگی یہ معاشرے سے تشد د اور بے حسی ختم کرنے کا اسم ِاعظم ہوگی۔ نفرت قابل ِ مذمت ہے، محبت نہیں۔